1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سفارت کاری کے جادوگر سیاستدان ہنس ڈیٹرش گینشر کا انتقال

امتیاز احمد1 اپریل 2016

وہ جرمنی کے اہم ترین سیاستدانوں میں سے ایک تھے۔ ان کا شمار جرمنی کے دوبارہ اتحاد میں اہم کردار ادا کرنے والے سیاستدانوں میں ہوتا تھا۔ وزیر خارجہ کے طور پر پوری دنیا ان کی صلاحیتوں کی معترف تھی۔

https://p.dw.com/p/1INUI
Hans-Dietrich Genscher anderer Ausschnitt
تصویر: picture-alliance/dpa/S.Hoppe

’’ہم یہاں آپ کو یہ بتانے آئے ہیں کہ آپ کو سفر کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔‘‘ ہنس ڈیٹرش گینشر کا یہ جملہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ یہ الفاظ انہوں نے تیس ستمبر 1989ء کو پراگ میں جرمن سفارت خانے کی بالکنی میں کھڑے ہو کر کہے تھے۔ یہ الفاظ سنتے ہی وہاں موجود سابقہ مشرقی جرمنی جی ڈی آر کے ہزاروں شہریوں نے خوشی سے ہوا میں اچھلنا شروع کر دیا تھا۔ یہ لوگ جرمنی آنا چاہتے تھے اور ویزے کے لیے کئی دنوں سے پراگ میں جرمن سفارت خانے کے سامنے جمع تھے۔ اس سفارت کار کا یہ اعلان بعد میں جرمن اتحاد کی جانب ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔

بعد ازاں ایک انٹرویو کے دوران ڈیٹرش گینشر کا کہنا تھا کہ یہ ان کی زندگی کا سب سے متاثرکن اور دل کو چُھو لینے والا لمحہ تھا، ’’یہ خوشی کی ایک پکار تھی، جس کا کسی اور چیز سے موازنہ ناممکن ہے۔‘‘

Die westdeutsche Botschaft in Prag am 30. September 1989
تصویر: picture-alliance/AP Photo

جرمنی کے اس سیاستدان کو سفارت کاری کے جادوگر کے نام سے جانا جاتا تھا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے لیے انہوں نے انتھک کوششیں جاری رکھیں۔ وہ کبھی بھی مکالمے اور مذاکرات کا سلسلہ بند ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ انیس سو پچھتر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’ہمارا مقصد ہی یہ ہے کہ ہم یورپ میں امن کے لیے کوششیں کرتے رہیں۔ ایک ایسا ماحول پیدا کریں، جس میں جرمن قوم اپنے دوبارہ اتحاد کے بارے میں اپنا حق خود ارادیت استعمال کر سکے۔‘‘

ہنس ڈیٹرش گینشر کے نام کا مطلب ہی یہ مشہور ہو چکا تھا، ’’دوسرے فریق کے پاس جائیں، اس کی بات غور سے سنیں، ماحول سازگار بنائیں اور مذاکرات کریں۔‘‘ وہ ہر جگہ اسی موٹو کے ساتھ پہنچتے تھے۔ انہوں نے سخت ترین الفاظ اس وقت استعمال کیے تھے، جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کر دیا تھا۔ لیکن وہ سفارت کاری میں اس قدر مہارت رکھتے تھے کہ ہر فریق ان کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہو جاتا تھا۔

ہنس ڈیٹرش گینشر نے بطور وزیر خارجہ روس کے ساتھ مذاکرات کیے اور ماسکو کو اس مقام پر لے آئے کہ وہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانے پر سوچنے لگا۔ وہ سوویت یونین کے ساتھ وارسا معاہدے میں بھی شریک تھے، جس کے بعد روس نے اقتصادی، سیاسی اور سماجی اصلاحات کرنا شروع کر دی تھیں۔

جرمنی کے یہ سیاستدان انیس سو بانوے میں ابھی فعال سیاسی کردار ادا کر رہے تھے کہ انہوں نے سیاست کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کر لیا۔

ہنس ڈیٹرش گینشر کی عمر 89 برس تھی۔ وہ ان چند جرمن سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں، جن کا نام جرمنی کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔