1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سفر کے دوران اپنوں سے بچھڑ جانا حقيقی مسئلہ ہے‘

عاصم سليم16 نومبر 2015

شورش زدہ ممالک سے لاکھوں تارکين وطن يورپ ميں ايک بہتر زندگی کے خواب سجائے نکل تو پڑتے ہيں ليکن اس دوران انہيں متعدد خطرے مول لينا پڑتے ہيں۔ بہت سے لوگ طويل سفر کے دوران اپنے پياروں سے بچھڑ بھی جاتے ہيں۔

https://p.dw.com/p/1H6ep
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert

وہ چھ تھے مگر اب صرف چار بچے ہيں۔ افغان پناہ گزين علی غزنی سمندروں اور سرحدوں کے پُر خطر سفر طے کرتے ہوئے آسٹريا کے بارڈر تک تو پہنچ گئے، ليکن منزل سے کچھ ہی قدم پہلے ان کے اپنے ان سے بچھڑ گئے۔ چونتيس سالہ غزنی اپنی آٹھ سالہ بھتيجی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ٹوٹی پھوٹی انگريزی ميں بتاتے ہيں، ’’يہ اپنے والدين کو ياد کر کے رو رہی ہے۔‘‘ غزنی تقريباً دو ہزار مہاجرين کے ہجوم سے کسی نہ کسی طرح اپنے اہل خانہ کو بحفاظت نکال تو لائے تاہم اس دوران ريحانہ کے والدين کب ان سے بچھڑ گئے، پتہ ہی نہيں چلا۔

شام، عراق، افغانستان اور ديگر شورش زدہ ممالک سے يورپ پہنچنے کی کوشش کے دوران اکثر لوگ سرحديں پار کرتے ہوئے لوگوں کے ہجوم ميں کھو جاتے ہيں۔

جرمن رياست باويريا کے شہر پساؤ ميں پناہ گزينوں کے ايک کيمپ ميں علی غزنی اپنی اہليہ، چار ماہ کی بيٹی اور بھتيجی ريحانہ کے ساتھ موجود ہيں۔ يہ لوگ وہاں قريب ايک ہفتے سے موجود ہيں۔ غزنی ان سب کو لے کر آگے اس ليے نہيں بڑھ سکا کيونکہ اس کی بيٹی کو دل ميں تکليف کے سبب ہسپتال لے جانا پڑ گيا۔ اس دوران ريحانہ اپنے والدين کے ليے خوفزدہ تو تھی، ليکن جب کبھی کوئی اس سے حال احوال دريافت کرتا ہے، تو وہ مسکرا کر جرمن زبان ميں ’آلس گوٹ‘ يعنی سب ٹھيک ہے، کہہ ديتی ہے۔

جدائی کے تين دن بعد ريحانہ کا اپنے والدين سے رابطہ ہوا۔ پتہ يہ چلا کہ وہ لوگ وسطی جرمنی کے شہر ہالبراشٹَٹ پہنچ چکے ہيں۔ علی غزنی نے انٹرنيٹ کے ذريعے ان سے رابطہ کيا۔ اب يہ بچھڑا ہوا خاندان دوبارہ ملنے کا منتظر ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين UNHCR کی جرمن دارالحکومت برلن ميں قائم شاخ کے ترجمان مارٹن رينچ کے مطابق ہر کسی نے بلقان ممالک سے گزرنے والے روٹ کو ديکھا ہے، يہ کوئی تعجب کی بات نہيں کہ ايسے حالات ميں لوگ کھو بھی جاتے ہيں۔

سياسی پناہ کے ليے کام کرنے ولے ايک گروپ Pro Asyl يا پرو ازيل کے منیجنگ ڈائريکٹر گُنٹر بُرکہارٹ بتاتے ہيں، ’’ايسا اکثر اوقات اور تقريباً ہر جگہ ہوتا ہے۔‘‘ ان کے بقول سفر کے دوران کسی خاندان کے ارکان کا بچھڑ جانا ايک حقيقی مسئلہ ہے، جو عموماً ترکی سے کشتيوں کے ذريعے يونان کے ابتدائی سفر کے دوران ہی رونما ہوتا ہے۔ کشتياں ڈوب جاتی ہيں يا کبھی کبھار الٹ جاتی ہيں اور ايسی صورت ميں بچا ليے جانے والے پناہ گزينوں کو يا تو ترکی لے جايا جاتا ہے يا يونان۔ بہت سے نابالغوں کو بھی يوتھ ويلفيئر سروسز کے دفتر پہنچايا جا چکا ہے اور اس تعداد ميں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔

سفر کے دوران کسی خاندان کے ارکان کا بچھڑ جانا ايک حقيقی مسئلہ ہے، جو عموماً ترکی سے کشتيوں کے ذريعے يونان کے ابتدائی سفر کے دوران ہی رونما ہوتا ہے
سفر کے دوران کسی خاندان کے ارکان کا بچھڑ جانا ايک حقيقی مسئلہ ہے، جو عموماً ترکی سے کشتيوں کے ذريعے يونان کے ابتدائی سفر کے دوران ہی رونما ہوتا ہےتصویر: Reuters/A. Konstantinidis

يو اين ايچ سی آر کے ترجمان مارٹن رينچ کے مطابق اگر پناہ گزين خود اپنوں سے رابطہ نہيں کر پاتے تو جرمن ريڈ کراس کی ٹريکنگ سروس ان کے کام آتی ہے۔ يہ سروس 1945ء ميں دوسری عالمی جنگ کے بعد وسيع پيمانے پر گمشدگيوں کے سبب شروع کی گئی تھی۔ سروس ميں ’ٹريس دا فيس‘ نامی ايک مہم 2013ء ميں شروع کی گئی، جس کے ذريعے مہاجرين سفر کے دوران اپنے بچھڑ جانے والوں کی تصاوير شائع کر سکتے ہيں، جن کی مدد سے اپنوں کو پہچانا جا سکتا ہے۔

گزشتہ برس اس مہم کی مدد سے 74 گمشدہ افراد اپنے اہل خانہ سے مل سکے۔ ايک اور ادارہ ريفيوجيز يونائٹڈ بھی اپنی سروس Refunite کے ذريعے يہی کام سرانجام ديتا ہے۔