1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سلامتی کونسل کی ايٹمی ہتھياروں کے خاتمے کی قرارداد کے نکات

25 ستمبر 2009

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کل ايٹمی ہتھياروں کے مکمل خاتمے کی قرارداد کی منظوری دے دی۔

https://p.dw.com/p/JpIv
تصویر: AP

اس کے بنيادی نکات يہ ہيں کہ ايٹمی ہتھياروں سے مسلح ممالک کی تعداد ميں اضافہ نہيں ہونے ديا جائے گا، ايٹمی اسلحہ دہشت گردوں کے ہاتھ نہيں لگنے ديا جائے گا اور جوہری طاقتيں اپنے ايٹمی ہتھيار ضائع کر ديں گی۔

يہ ايک تاريخی اقدام ہے، جس کی قدروقيمت کو محض مختصر مدت ميں حاصل ہونے والی کاميابيوں کی صورت ميں نہيں ماپا جانا چاہئے۔ اس ميں شک نہيں کہ ايٹمی ہتھياروں سے پاک دنيا فی الوقت ناممکن نظر آتی ہے۔ آج کی حقيقت يہ ہے کہ شمالی کوريا اور ايران جوہری اسلحے کے حصول کے لئے کوشاں ہيں اور امريکہ اور روس کے پاس ايسے ايٹمی ہتھيار ہيں، جو زمين پر زندگی کو نيست و نابود کر سکتے ہيں۔ تاہم اس ميں تبديلی کے لئے ايک عظيم تصور يا وژن کی ضرورت ہے اور امريکی صدر اوباما ايسا تصور پيش کرنے کی جرأت بھی کر رہے ہيں۔

UN Sicherheitsrat
سیکیورٹی کونسل کے اراکین ہاتھ اٹھا کر قرارداد کے حق میں ووٹ دے رہے ہیںتصویر: AP

دنيا کو ايٹمی اسلحے سے پاک کرنا يقيناً ايک بہت مشکل کام ہے ليکن کم ازکم اس سلسلے ميں ايک ابتدا کر دی گئی ہے۔ اس حوالے سے اہم بات يہ ہے کہ کل سلامتی کونسل ميں متفقہ طور پر منظور کی جانے والی يہ قرارداد صرف پہلے سے موجود ايٹمی ہتھياروں کے خاتمے تک محدود نہيں ہے بلکہ اس ميں واضح طور پر يہ بھی کہا گيا ہے کہ اب مزيد کسی ملک کو جوہری اسلحہ تيار نہيں کرنا چاہيے۔ اس پر بھی اتفاق کيا گيا ہے کہ ايٹمی اسلحے يا اس کے کسی جزو کو دہشت گردوں کے قبضے ميں نہيں آنے ديا جائے گا۔

کسی کام کو انجام دينے کے لئے صرف قرارداديں اور اعلانات ہی کافی نہيں ہوتے۔ يہ بات حوصلہ افزا ہے کہ امريکی اور روسی صدور نے اپنے ايٹمی ہتھياروں کو ضائع کر دينے کے معاہدے کی تجديد کا اعلان کيا ہے۔ تاہم ابھی تک دونوں فريقوں ميں سے کوئی بھی ان سب سےزيادہ تباہ کن فوجی ہتھياروں کی قربانی دينے کے لئے تيار نہيں ہے۔ باراک اوباما کو جوہری اسلحے کے تجربات کو روکنے کے معاہدے پر دستخط کا سياسی اختيار حاصل نہيں ہے۔ امريکی نظام صحت کی اصلاح اور آب و ہوا کے تحفظ کے قانون کی منظوری کی طرح اس سلسلے ميں بھی پہلے امريکی کانگريس کی منظوری ضروری ہے۔ امريکی رائے عامہ اور اس کے نمائندوں کی ايک بڑی تعداد ابھی تک اپنے صدر کے منصوبے کی حمايت پر تيار نہيں ہے۔ اس لئے صدر اوباما کو عالمی اسٹيج پر کہے گئے الفاظ کو قومی سطح پر منظور کرانے کے سلسلے ميں مشکلات کا سامنا ہوگا۔

اس کے باوجود يہ اوباما کی کاميابی ہے کہ تخفيف اسلحہ کے سلسلے ميں پہلے سے زيادہ ممالک مشترکہ کوشش کے لئے تيار ہيں۔ ايران کے ساتھ ايٹمی تنازعے ميں بھی سلامتی کونسل کے ويٹو کا حق رکھنے والے پانچ ممالک اور جرمنی اب زيادہ متحد ہو کر مذاکرات ميں حصہ ليں گے۔ کچھ ہی عرصہ قبل يہ اتحاد بھی ممکن نظر نہيں آتا تھا۔

تبصرہ: کرسٹينا بیرگ مان / شہاب احمد صدیقی

ادارت: امجد علی