1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سلیم شہزاد قتل کیس، سپریم کورٹ کی طرف سے تفصیلات طلب

17 جون 2011

پاکستان میں سپریم کورٹ نے صحافی سلیم شہزاد کے قتل کے مقدمے میں اب تک ہونے والی تفتیش کے بارے میں حکومت سے تفصیلات طلب کر لی ہیں۔

https://p.dw.com/p/11db4
مقتول صحافی سلیم شہزادتصویر: dapd

عدالت نے وفاقی سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری قانون اور سیکرٹری اطلاعات کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے بیس جون تک تفصیلات جمع کروانے کے لیے کہا ہے۔ صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان یونین آف جرنلسٹس نے سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کے لیے اعلٰی عدالتی کمیشن بنانے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اس درخواست کی سماعت کی۔ پی ایف یو جے کی درخواست کی پیروی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر عاصمہ جہانگیر اور سنئیر وکیل منیر اے ملک نے کی۔

درخواست میں وفاقی حکومت کو فریق بناتے ہوئے استدعا کی گئی ہے کہ سلیم شہزاد کے قتل کے حقائق جاننے کے لیے ایک اعلی اختیارتی کمشن تشکیل دیا جائے تاکہ صحافی کسی خوف وخطرے کے بغیر اپنے فرائض سر انجام دے سکیں۔ عاصمہ جہانگیر نے اپنے دلائل میں کہا کہ سلیم شہزاد کے موبائل فون کے آخری پندرہ روز کا ریکارڈ صاف کردیاگیا ہے اور یہ کام صرف ملک کی ایک وفاقی خفیہ ایجنسی کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی تحقیقات بھی ایک طاقتور کمشن ہی کر سکتا ہے۔

Pakistan Journalist Syed Saleem Shahzad
سلیم شہزاد کی ہلاکت پر صحافی برادری نے شدید احتجاج کیاتصویر: ap

عاصمہ جہانگیر نے بعدا زاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’ اس لیے اعلٰی اختیاراتی کمشن سپریم کورٹ کی سربراہی میں ضروری ہے کیونکہ اس میں ایک وفاقی ایجنسی پر الزامات ہیں اور اس ایجنسی کی ایک تاریخ ہے کہ وہ بہت طاقتور ہے ۔ ہم ایک جمہوری سفر کے آغاز میں ہیں تو اس نازک وقت میں طاقتور ایجنسی کو کنٹرول کرنے کے لئے مضبوط ادارے چاہیے ہیں‘۔

منیر اے ملک نےعدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے اعلان کردہ کمیشن کی تشکیل سے پہلے چیف جسٹس کی مشاورت ضروری تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اُنہوں نے کہا کہ ایک اعلٰی اختیاراتی کمیشن تشکیل دیا جائے، جو کسی بھی ادارے کے اہلکار کو طلب کرنے کا اختیار رکھتا ہو۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ سلیم شہزاد کے قتل کے واقعے سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہوئی ہے اور ایسے معاملات کی چھان بین ہونی چاہیے۔

عدالت نے اس مقدمے کی سماعت 20جون تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کے علاوہ پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل اور اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو بھی آئندہ سماعت کے لیے نوٹسز جاری کردیے ہیں جبکہ پولیس کی تفتیش کا ریکارڈ اور اس مقدمے کی تفتیش کرنے والے پولیس اہلکاروں کو بھی عدالت میں طلب کرلیا ہے۔ حکومت نے ایک روز قبل سپریم کورٹ کے جج ثاقب نثار کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی کمیشن کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔

تاہم جسٹس ثاقب نثار نے یہ مؤقف اختیار کرتے ہوئےاس کمیشن کی سربراہی کرنے سے معذرت کرلی تھی کہ حکومت نے اس بارے چیف جسٹس سے مشاورت نہیں کی۔ پی ایف یوجے کے صدر شوکت پرویز کا کہنا ہے کہ انہیں امید تھی کہ حکومت صحافیوں سے ہونے والی زیادتی کا ازالہ کرے گی۔ لیکن کمشن کی تشکیل متنازعہ ہونے کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ آنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا،’ایک بحران پیدا ہو رہا تھا تو ہم نے کوشش کی کہ پہلے سے بحرانوں کے شکار ملک میں ایک اور بحران میں فریق نہ بنیں۔ ہم نے سوچا سپریم کورٹ چلتے ہیں کیونکہ ہم پہلے بھی سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس لینے کی درخواست کرتے رہے ہیں۔امید ہے کہ چیف جسٹس سے ہمیں ریلیف ملے گا‘۔

اس سے پہلے حکومت کی جانب سے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے بنایا جانے والا عدالتی کمیشن بھی متنازعہ بن گیا ہے۔ سپریم کورٹ بار اور حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس کمشن کے سربراہ اور سپریم کورٹ کے جج جسٹس جاوید اقبال کی تقرری کے لیے بھی چیف جسٹس سے مشاورت نہیں کی۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں