1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سندھ اور بلوچستان میں داعش کا اثر بڑھتا ہوا، لیکن کیسے؟

2 مارچ 2017

لعل شہباز قلندر کی درگاہ پر ہونے والا حملہ داعش اور لشکر جھنگوی کے درمیان گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھا۔ ماہرین کے مطابق اگر اس نیٹ ورک کو بروقت نہ توڑا گیا تو مستقبل قریب میں سندھ اور بلوچستان نئی تباہی سے دوچار ہوسکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2YWO0
Pakistan Anschlag in Karachi
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/S. Akber

سندھ پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے سینیئر اہلکار عمر شاہد حامد نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ داعش کا دنیا بھر میں یہ تاثر ہے کہ روایت کے برخلاف مدرسوں کی بجائے مغربی علوم اور تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے یا ان سے فارغ التحصل افراد اس عالمی دہشت گرد تنظیم کے نظریے سے متاثر ہیں اور اس تنظیم میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ امریکا میں ہونے والے حملے ہوں یا فرانس میں دہشت گردی یا پھر کراچی کے سانحہ صفورا میں ملوث دہشت گرد، تمام ہی معروف تعلیمی اداروں سے تعیلم یافتہ تھے۔ لیکن خفیہ اداروں کی معلومات کے مطابق اب تک پاکستان میں داعش کا براہ راست کوئی سیٹ اپ نہیں ہے۔ تاہم کچھ گروپ، جو کہ ماضی میں مختلف ناموں سے کام کررہے تھے، داعش کی چھتری تلے جمع ہو رہے ہیں۔

کالعدم لشکر جھنگوی ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت بلوچستان میں مضبوط دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ کوئٹہ میں آپریشن کیا گیا ہے لیکن صوبے کے دیگر علاقوں میں اب بھی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں۔ عمر حامد نے چند روز قبل اسی حوالے سے بلوچستان کا دورہ کیا کیوں کہ ان کی رائے میں بلوچستان اور سندھ کے سرحدی علاقوں میں بہت سے اسی گزر گاہیں موجود ہیں جن کے ذریعے دونوں صوبہ کے لوگ بغیر کسی روک ٹوک آتے جاتے ہیں۔ حامد کے مطابق ان کی بلوچستان پولیس سے اسی حوالے سے بات ہوئی تاکہ اس نقل و حرکت کو روکنے یا کم از کم چیک کرنے کے حوالے سے کوئی حکمت عملی طے کی جا سکے۔

PAKISTAN Sehwan  Anschlag auf Sufi-Schrein
لعل شہباز قلندر کی درگاہ پر ہونے والا حملہ داعش اور لشکر جھنگوی کے درمیان گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھاتصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عمر شاہد حامد کا یہ بھی کہنا تھا کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں ایسے مدارس کی بھی نشاندہی کرلی گئی ہے جن کی انتظامیہ کسی بھی لحاظ سے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے یا ان مدارس میں ماضی میں اسے شواہد ملے ہیں کہ وہاں دہشت گرد بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر سرگرم رہے ہیں یا سہولت کاری کے زمرے میں آتے ہیں۔

تحقیقاتی ادارے سیہون دھماکے میں حفیظ بروہی نیٹ ورک کے ملوث ہونے کا امکان ظاہر کررہے ہیں۔ یہ وہی حفیظ بروہی ہے جو گزشتہ برس شکارپور کی تحصل خانپور کی امام بارگاہ پر ہونے والے ناکام خود کش حملے میں بھی ملوث ہے۔ ذرائع کے مطابق حفیظ بروہی اور عبداللہ بروہی دونوں لشکر جھنگوی کے لیے کام کرتے ہیں۔ دونوں کا تعلق شکار پور سے ہے اور دونوں سکھر کے نامور مدرسے میں زیر تعلیم بھی رہ چکے ہیں۔

عبداللہ بروہی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ان دنوں افغانستان میں ہے اور وہاں سے خود کش حملہ آوروں کو چمن کے راستے پاکستان بھیجتا ہے اور بلوچستان میں مولوی نذیر نامی شخص ان خودکش بمباروں کا سہولت کار ہے۔ ستمبر 2015 میں خانپور امام بارگاہ پر حملے کے لیے آنے والے خودکش حلمہ آوروں میں سے ایک زندہ پکڑے جانے والے دہشت گرد عثمان نے دورانِ تفتیش بتایا کہ وہ جولائی 2015 میں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور مولوی نذیر نے انہیں دو ماہ تک بلوچستان کے علاقے وڈ میں رکھا تھا۔

تحقیاتی اداروں کو سیہون دھماکے اور چند ماہ قبل بلوچستان میں واقع بلاول شاہ نورانی کی درگاہ پر ہونے والے خودکش حملے میں غیر معمولی مماثلت بھی دکھائی دے رہی ہے اور تفتیش کار اس بات پر تقریباﹰ متفق ہیں کہ لشکر جھنگوی اور داعش کے نظریات سے متاثر دیگر کالعدم گروہوں کو داعش کی صورت میں یکجا ہونے کا ایک بڑا موقع میسر آگیا ہے اور بلوچستان اور سندھ ایسے گروپوں کے لیے زرخیز ہیں۔

مبصرین کی رائے میں یہ معاملہ صرف پولیس کی سطح کا نہیں ہے اور نہ ہی پولیس تنہا اس سے نبرد آزما ہوسکتی ہے کیوں کہ فرقہ واریت اور کرپشن پاکستان کے دو بہت پرانے مسائل ہیں۔ سعودی اور ایران کی پراکسی وار کے لیے بھی پوٹینشل ملک میں ہی دستیاب ہوتا ہے مگر حکومت اس مسئلے کو بظاہر اس پہلو سے دیکھنے پر تیار نظر نہیں آتی۔

’دہشت گرد محدود پیمانے پر حملے کرنے کی صلاحيت رکھتے ہيں‘