1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سندھ میں انتظامی تقسیم کا معاملہ اور سیاسی کھینچا تانی

8 اگست 2011

پاکستان میں صوبوں کی انتظامی بنیادوں پر تقیسم کی تحاریک ایک بار پھر سے زور پکڑنے لگی ہیں اور حکومت کی جانب سے پہلے اس ضمن میں اقدامات کے اعلان اور پھر اُن کی واپسی نے اس ’مردہ گھوڑے‘ میں مزید جان ڈال دی ہے

https://p.dw.com/p/12D33
تصویر: AP

تیرہ جولائی کو حکومت سندھ کی جانب سے انتہائی عجلت میں کمشنری نظام کو بحال کیا گیا تھا اور حکومت کے تمام وزراء، مشیر اور انتظامی مشینری اس حکومتی فیصلے کے دفاع میں جُت گئے۔ مگر کمشنری نظام کے سقم نہ چھپا سکیں۔ سندھ اسمبلی میں صرف دو نشستوں اور صوبائی کابینہ میں ایک وزیر کی حامل حکومتی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے کمشنری نظام کی بحالی کے لیے پیپلزپارٹی کا نہ صرف اسمبلی بلکہ اسمبلی سے باہر بھی بھرپور ساتھ دیا۔ تاہم سندھ کے شہری علاقوں میں 80 فیصد آبادی کی ترجمان ہونے کا دعویٰ کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ اپنے موقف پر قائم رہی۔

بات حکومت سے علیٰحدگی اور سندھ کی گورنر شپ سے استعفوں تک پہنچ گئی اور پھر دبے لفظوں میں نئے صوبے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ رہی سہی کسر کراچی میں جاری بد امنی نے پوری کردی ، جس میں ایک ماہ سے بھی کم مدت میں تقریباً 500 افراد کی جانیں ضائع ہوئیں۔

ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی خاص قوتیں میدان میں آئیں، بیرون ملک سیاسی ملاقاتیں ہوئیں اور سب پھر سے ’بھائی بھائی‘ ہوگئے۔ نتیجہ یہ کہ حکومت نے ایم کیو ایم کا مطالبہ مان کر کراچی اور حیدر آباد میں کمشنری نظام کو ختم کر کے ضلعی حکومتوں کو بحال کردیا۔

Pakistan Politik Koalition
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سابقہ دورہء کراچی میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے رہنماوں کے ہمراہ، فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/dpa

لیکن جب عوامی نیشنل پارٹی اور سندھی قوم پرستوں نے اس فیصلے کو سندھ کی تقسیم سے تعبیر کر کے ہڑتال اور احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تو ماہرین کے بقول بظاہر پیپلز پارٹی کو یہ خیال آیا کہ یہی ناخوش عناصر تو وہ قوم پرست ہیں جو آڑے وقت میں اسے سندھ کارڈ کھیلنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ لہٰذا پورے صوبے میں کمشنری نظام کی بساط بھی لپیٹ دی گئی اور قوم پرست اس پر بھی ناخوش ہیں۔ قوم پرست رہنما قادر مگسی کا کہنا ہے جو بھی سیاست دان اس قانون کے حق میں رائے دے گا، وہ سندھ کا ’غدار‘ کہلائے گا۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی کو پنجاب میں شروع کردہ ’سرائیکی صوبے کا کھیل‘ بھی مہنگا پڑتا دکھائی دیتا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی مشیر شرمیلا فاروقی تسلیم کرتی ہیں کہ بلدیاتی نظام کی بحالی کے فیصلے سے پیپلز پارٹی کو سیاسی نقصان ہوا ہے ، ’’اندرون سندھ لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ پی پی نے گھٹنے ٹیک دیے اور سندھ کی تقسیم ہونے لگی ہے وغیرہ۔‘‘

مبصرین کی رائے میں پیپلز پارٹی کے رہنما بابر اعوان اس مرتبہ ’دوست نما دشمن‘ کا کردار ادا کررہے ہیں۔ ماہرین کے بقول بابر اعوان نے جس انداز میں نواز لیگ سے مخالفت مول لے رکھی ہے، وہ پیپلز پارٹی کو آئندہ انتخابات میں ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کرسکتی ہے۔

رپورٹ:رفعت سعید، کراچی

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں