1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سن دو ہزار نو حقوق نسواں کے تحفظ کا سال

کشور مصطفیٰ5 جنوری 2009

دُنیا بھر میں عورتوں پر ہونے والے ظلم وستم کے خلاف موٴثر جنگ کے لئے 2009 سے یورپی یونین کے تمام رکن ملکوں میں خصوصی اصول لاگو کئے جا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/GQSi
جنوبی جرمنی کی خوبصورت جھیل کے کنارے دو جرمن خواتین گھوڑوں پر سوارتصویر: AP

1998 سے ہی یہاں ایسے راہنما اصول موجود ہیں، جن کے ذریعے مثلاً سزائے موت کے خاتمے، حقوق انسانی کے علمبرداروں کو زیادہ تحفظ مہیا کرنے یا حقوق بچگان کے لئے عالمی سطح پر آواز بلند کی جا سکتی ہے۔

یورپی یونین کے نئے راہنما اصول برائے تحفظ خواتین:

تاہم اب یورپی یونین کے رکن ممالک اپنی خارجہ پالیسیوں کے تحت عورتوں کے خلاف روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کے خلاف جنگ کا دائرہ تمام دنیا تک پھیلا رہے ہیں۔ نئے راہنما اصولوں کی بنیاد بین الاقوامی معاہدوں اور بالخصوص اقوام متحدہ کے طے کردہ اصولوں کے عین مطابق رکھی گئی ہے۔

Pakistan Wasserversorgung
عالمی سطح پر منائے جانے والے واٹر ڈے کے موقع پر پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے مضافات میں خواتین ایک کنویں سے پانی نکال رہی ہیںتصویر: ap

پاکستان میں حقوق نسواں کے تحفظ کی صورتحال کیسی ہے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کی کونسل آف اسلامک آئڈیولوجی کی ڈائریکٹر لاء فوزیہ جلال نے۔ اُن کے مطابق پاکستان کی موجودہ حکومت حقوق نسواں کے تحفظ کے لئے موٴثر اقدامات کر رہی ہے۔ ’’معاشرے کے ہر شعبے میں خواتین کو ترقی کے مواقع فراہم کئےجا رہے ہیں۔ اس کی جیتی جاگتی مثال، موجودہ حکومتی دور میں ایک لیڈی اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی تقرری ہے۔ اس عہدے پر اس سے پہلے کسی خاتون کو فائز نہیں کیا گیا۔‘‘

فوزیہ جلال کے مطابق پاکستان میں خواتین کے امور سے متعلق قوانین میں بہت سی اہم ترامیم ہو چکی ہیں۔ آج پاکستان میں عورتوں کی صورتحال وہ نہیں جو دس سال پہلے تھی۔ اب پاکستانی خواتین مسائل کے انبار تلے دبی نظر نہیں آتیں۔ قوانین کے حوالے سے خواتین کو اس حد تک قانونی تحفظ فراہم کر دیا گیا ہے کہ پاکستانی مرد اب اس امر پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ ان کے معاشرے میں خواتین کو کچھ زیادہ ہی قانونی تحفظ دیا جا رہا ہے۔

Parlamentswahlen in Pakistan
پاکستان کے بحران زدہ صوبے پشاور میں خواتین اپنا ووٹ ڈالنے کے لئے ایک پولنگ بوتھ کی طرف جارہی ہیںتصویر: AP

فوزیہ جلال نے بتایا کہ پاکستان کے قوانین میں عورتوں کے تحفظ سے متعلق بہت سے حقوق موجود ہیں تاہم المیہ یہ ہے کہ خود خواتین کو اس کا علم بہت کم ہے اور ان کے اندر اپنے حقوق جاننے اور ان کے حصول کی کوشش کا شعور بھی نہیں پایا جاتا۔ فوزیہ کے مطابق پاکستان میں فیملی لاز کے تحت خواتین کے نکاح اور طلاق سے متعلق قوانین میں اصلاحات کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔ اعلی عدالتوں کی مسلسل یہ کوشش ہوتی ہے کہ خواتین کے لئے طلاق یا خلاء وغیرہ کے قوانین کو سہل بنایا جائے اور ایسے مقدمات کو طویل عرصے تک کھنچنے کے بجائے اس کا فیصلہ جلد ممکن بنایا جائے۔

فوزیہ جلال نے بتایا کہ اس وقت طلاق سے متعلق قانون میں تبدیلی کی ایک نئی تجویز پر بحث جاری ہے، جس کے تحت آئندہ خواتین کو طلاق لینے کے لئے کورٹ میں جا کر طویل عرصے پر محیط عدالتی کاروائیوں کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا، بلکہ وہ عدالت میں جائے بغیر، سیدھے سیدھے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کر سکیں گی۔ ’’موجودہ حکومت اس پر سنجیدگی سے غور و خوض کر رہی ہے اور اس امر پر اتفاق کے بعد اسے حتمی قانونی شکل دے دی جائے گی۔‘‘

خواتین کے جنسی استحصال اور انکے ساتھ مختلف شعبوں میں ہونے والے امتیازی سلوک کی صورتحال کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں فوزیہ جلال کا کہنا تھا کہ اس قسم کے مسائل کا حل راتوں رات ممکن نہیں۔ ’’پاکستانی معاشرے میں مردوں کی سوچ اور رویے میں تبدیلی کی ضرورت ہے جو آہستہ آہستہ رونماء ہونا شروع ہوگئی ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ آج سے دس سال پہلے اور اب کی صورتحال میں بہت تبدیلی آچکی ہے۔ اس وقت کوٹا سسٹم کی وجہ سے خواتین کو مختلف شعبوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کے مواقع میسر ہیں۔ پاکستان میں اب عورتیں بھی معاشرتی زمہداریوں کو نبھانے کے عمل میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں اور اس طرح مرد آہستہ آہستہ اس بات کے عادی ہو رہے ہیں کہ خواتین بھی مختلف شعبوں میں کام کرتی دکھائی دے سکتی ہیں۔ ’’اب کام کرنے والی عورتوں کو عجوبہ نہیں سمجھا جاتا۔‘‘

دوسری جانب دفاتر اور تعلیمی اداروں میں کوٹا سسٹم کے نفاذ سے خود خواتین کے اندر آگے سے آگے بڑھنے اور مقابلہ کرنے کا شوق بیدار ہوتا جا رہا ہے۔ فوزیہ جلال کے مطابق پاکستان میں بہت سے شعبوں میں خواتین کو اعلی عہدے بھی دیے جا رہے رہیں۔ زیادہ سے زیادہ خواتین ججوں کی تقرری کو فروغ دیا جا رہا ہے تاکہ فیملی یا خاندانی مسائل کے قانونی حل میں عورتوں کی پوری پوری نمائندگی ہو سکے اور انکے مسائل مردوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑ دئیے جائیں۔

عورتوں کےساتھ جبر و تشدد اورہرطرح کے امتیازی سلوک روا رکھے جانے کے خلاف جنگ کے بارے میں یورپی یونین کے راہنما اصول۔

اس عنوان کے تحت جو گائیڈ لائنز دی گئی ہیں وہ 19 صفحات پرمشتمل ہیں۔ عورتوں کےساتھ ہونے والے جبر و تشدد کا راستہ روکنے کے لئے جو راہنما اصول وضع کئے گئے ہیں ان سے یورپی یونین کے سیاسی ارادوں کا پتہ چلتا ہے کہ وہ کس طرح سے حقوق نسواں کے موضوع کو ترجیح دے رہی ہے۔ عورتوں اور بچیوں کے خلاف جبر و تشدد کے حوالے سے ان راہنما اصولوں کی شکل میں یورپی یونین کے ہاتھ ایک ایسا ہتھیار آ گیا ہے جس کی مدد سے وہ ہماری آج کی دنیا میں حقوق انسانی کی اس طرح کی پامالی کے خلاف اب موثر قدم اٹھا سکتی ہے۔

See the violence against women. Don´t close your eyes...
عورتوں پر ہونے والے تشّدد کو دیکھیں، اپنی آنکھیں بند نا کریں۔۔۔

فرانس کی سٹیٹ سیکریٹری Rama Yade نے ان اصولوں کے تحت فراہم کی جانے والی ٹھوس مدد کے بارے میں بتایا کہ پوری دنیا میں پھیلے یورپی یونین کے سفارت خانوں کو ہدایات دی جائیں گیں کہ وہ اس بات پر نگاہ رکھیں کہ میزبان ملکوں میں نسوانی حقوق کا کس قدر خیال رکھا جا رہا ہے۔ انہیں اس وقت فعال ہونا پڑے گا جب مثال کے طور پر وہاں کسی عورت کےساتھ ناانصافی ہو رہی ہو گی یا جہاں اس کے بنیادی حقوق پامال کئے جا رہے ہوں گے۔ اسی طرح ان سفارت خانوں کو ایسے منصوبوں میں مالی مدد فراہم کرنی ہو گی جن کے تحت ظلم کی شکار مستورات کو ایک عام زندگی شروع کرنے میں سہارا دینا ہو گا۔

ان گائیڈ لائنز کے لئے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور حقوق انسانی کی صورت حال پر نگاہ رکھنے والی انٹرنیشنل فیڈریشن آف ہیومن رائٹس سال ہا سال سے آوازیں بلند کر رہی تھیں۔ اس فیڈریشن کے لئے برسلز میں لابی کے طور پر فرائض انجام دینے والے Antoini Madelin نے بتایا کہ گائیڈ لائنز کی منظوری کے ساتھ ہی آگے کی جانب پہلا اہم قدم اٹھا لیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا مربوط سیاسی آلہ کار ہے جس کے ذریعے یورپی یونین کے رکن ممالک کے سفارت خانے میزبان ملکوں میں عورتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف موثر طریقے سے آواز بلند کر سکیں گے۔ یونین کی جانب سے عالمی سطح پر عورتوں کے ساتھ ہونے والے جبر و تشدد کے خلاف قدم اٹھانے کی یہ پہلی کوشش ہے۔

Frauen in Afghanistan
افغانستان کی یہ لڑکیاں اسکول سے اپنے گھروں کی طرف جاتے ہوئےتصویر: AP

گائیڈ لائنز کے تحت ایک طویل فہرست مرتب کی گئی ہے جس میں یہ درج ہے کہ عورتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے جبر کی کیا کیا شکلیں ہیں اور انہیں ختم کرنے کے لئے کیا کرنا ہو گا۔

گھریلو تشدد کے زمرے میں متعدد باتیں شامل ہیں۔ مثلا کسی عورت کی موجودہ یا سابق شوہر کے ہاتھوں پٹائی۔ کسی حاملہ عورت کو اسقاط حمل پر مجبور کرنا، خاص طور اس وقت جب یہ علم ہو جائے کہ اس کے پیٹ میں لڑکی ہے لڑکا نہیں۔

عورت کی زبردستی شادی:

اس کے حساس جنسی عضو کو جان بوجھ کر نقصان پہنچانا۔ عزت کے نام پر قتل۔ عورتوں اور بچیوں پر تیزاب پھیکنا وغیرہ۔ معاشرتی تشدد کے زمرے میں جو باتیں درج ہیں، ان میں یہ کچھ شامل ہے۔

زنا بالجبر، جنسی استحصال، تعلیم و تربیت کے اداروں میں عورت ہونے کی بنا پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا۔ فہرست میں شامل ایک اہم نکتہ کا تعلق حکومت کی طرف سے خواتین پر ناجائز دباؤ ڈالنے یا ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر چشم پوشی اختیار سے ہے۔

Antoini Madelin کے مطابق غیر سرکاری تنظیموں کے زور دینے پر یورپی یونین نے جو راہنما اصول وضع کئے ہیں ان کے تحت یورپی یونین دوسرے ملکوں پر زور دے گی کہ وہ اپنے عدالتی نظام میں اصلاحات لا کر ایسے قوانین وضع کریں جو مستورات کو بہتر تحفظ فراہم کرتے ہوں ۔ یونین اس بات کی بھی کوشش کرے گی کہ بیرونی ممالک اس حوالے سے طے کئے گئے بین الاقوامی معاہدوں کی توثیق کریں۔

اب یورپی یونین کے سفارت خانوں کو فوراً یہ ذمہ داری سونپی جا رہی ہے کہ وہ میزبان ملکوں میں معلومات اکٹھی کریں، ان قوانین کے بارے میں جن کی وجہ سے عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اور ایسی مستورات کی صیح تعداد کے بارے میں پتہ چلائیں جنہیں عورت ہونے کے ناطے جبر و تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ اس کے علاوہ میزبان ملکوں پر اس طرح سے اثر انداز ہونے کی کوشش کریں کہ وہ عورتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں عوامی شعور بیدار کرنے کی مہم چلا سکیں۔

یورپی یونین کے سفارت خانوں کو یہ کوشش بھی کرنی ہو گی کہ ایسے ملکوں میں جہاں لڑکیوں کے برتھ سرٹیفیکیٹ تیار نہیں کئے جاتے، وہاں نہ صرف یہ سرٹیفیکیٹ تیار کئے جا سکیں بلکہ بچیوں کو سکول بھی بھیجا جا سکے۔

BdT Internationaler Tag Kampf gegen Gewalt gegen Frauen Guatemala City
خواتین پر تشّدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر یہ شخص شمعیں روشن کرتے ہوئےتصویر: AP

یورپی یونین کے راہنما اصولوں کے تحت آئندہ میزبان ملکوں میں حقوق انسانی اور خاص طور پر نسوانی حقوق کے علمبرداروں کے تحفظ کے لئے خصوصی کوششیں کرنی ہوں گیں۔ خاص طور پر ان خواتین کی حفاظت کے لئے جنہیں انسانی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کی وجہ سے حکومتوں یا پھر بعض معاشرتی گروپوں کی جانب سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔

اس وقت یورپی یونین 8 ملین یورو سے زائد کا ایک ایسا امدادی فنڈ قائم کر رہی ہے، جس کے ذریعے تعاقب کے شکار حقوق انسانی کے علمبرداروں کی مالی مدد کی جا سکے گی۔ اس سلسلے میں حقوق انسانی تنظیموں کا ایک جال ترتیب دیا جائے گا جوعالمی سطح پر نگرانی کے فرائض انجام دے گا۔ اس بارے میں یورپی کمیشن کی جمہوریت اور حقوق انسانی کےشعبے کی ذمہ دار Marie Claire Lefevre-Lucas کا کہنا ہے کہ جب دنیا کے کسی بھی حصے میں حقوق انسانی کی جدوجہد کرنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہو گا یا جان کا خطرہ لاحق ہو گا تو اس نیٹ ورک کے ذریعے انسانی حقوق کے لئے سرگرم تنظیمیں حرکت میں آ سکیں گی۔ نہ صرف بوقت ضرورت قانونی مدد فراہم کی جائے گی بلکہ خطرے کی صورت میں ہم تعاقب کے شکار ایسے افراد کو ویزا دلوا کر کسی ایسے ملک میں بھیا جا سکے گا جہاں اس کی جان کو خطرہ نہ ہو گا۔ اور بھی کئی طرح سے ایسے لوگوں کی مدد کی جاتی رہے گی۔

خطرے میں گھرے حقوق انسانی کے علمبرداروں کی مدد کے لئے یورپی یونین کے امدادی فنڈ کا شعبہ 2009 کے اوائل سے کام کرنا شروع کر دے گا۔