1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سن 2015ء یورپ کے لیے دہشت گردی کا سال رہا

Bernd Riegert / امجد علی30 دسمبر 2015

لندن میں بڑے پیمانے پر ہونے والی دہشت گردی کے دس سال بعد 2015ء کا سال یورپ کے لیے بدترین دہشت گردی کا سال ثابت ہوا اور سینکڑوں فرانسیسی، ترک اور روسی شہری مارے گئے۔ نتیجہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف اعلان جنگ تھا۔

https://p.dw.com/p/1HW35
Symbolbild Paris Terror Polizei
فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں ہولناک دہشت گردی میں 130 افراد کی ہلاکت کے بعد پولیس کے سپاہی آئفل ٹاور کے قریب پہرہ دے رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/G. Horcajuelo

اس سال کا آغاز فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں جنوری میں طنز و مزاح پر مبنی تحریریں اور خاکے شائع کرنے والے جریدے ’شارلی ایبدو‘ پر حملے اور سترہ افراد کی ہلاکت سے ہوا۔ اس سال کا اختتام بھی پیرس ہی میں نومبر میں دہشت گردوں کے ایک منظم حملے سے ہوا، جس میں 130 انسان جان سے گئے۔ اس سانحے نے پورے یورپ پر ایک طرح سے سکتہ طاری کر دیا۔ فرانسیسی صدر فوانسوا اولانڈ نے چودہ نومبر کو اپنے خطاب میں کہا کہ ’داعش‘ کی طرف سے کیا جانے والا یہ حملہ فرانس اور یورپ کی آزاد خیال اقدار کے خلاف کھلا اعلانِ جنگ ہے۔

’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف حملوں میں اضافہ

یورپی سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ پیرس حملوں کے فوراً بعد ترکی میں جمع ہونے والے گروپ جی ٹوئنٹی کے رکن ملکوں نے بھی فرانس کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کیا اور مدد کا یقین دلایا۔ چونکہ ترکی اور روس بھی ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی ہولناک دہشت گردی کا ہدف بنے تھے، اس لیے اس دہشت گرد گروپ کے خلاف ایک ایسا وسیع اتحاد وجود میں آ گیا، جو اس سے پہلے تک ناقابلِ تصور نظر آ رہا تھا۔ شام میں جنگ البتہ بدستور بھرپور شدت کے ساتھ جاری ہے، یہ اور بات ہے کہ اس جنگ میں امریکا، روس، سعودی عرب، ایران، فرانس یا پھر ترکی سب کے مفادات الگ الگ ہیں۔

Frankreich Angela Merkel & Francois Hollande in Paris
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے فرانس کے ساتھ بھرپور یک جہتی کا اظہار کیا اور اپنے جاسوس طیارے اور ایک بحری جنگی جہاز شام میں کارروائی کے لیے بھیج دیاتصویر: Reuters/P. Wojazer

جنگ میں جرمنی بھی شریک ہو گیا

الگ الگ مفادات کی یہ حقیقت ترکی کی جانب سے ایک روسی جنگی طیارے کو مار گرائے جانے کے واقعے سے کھل کر سامنے آ گئی۔ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہت زیادہ سرد مہری تو آ گئی لیکن حالات مزید بگڑنے سے بچ گئے۔ جرمنی، برطانیہ اور ڈنمارک کی جانب سے فرانس کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے طور پر عملی اقدامات کا تہیہ کیا گیا اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف جنگ کے لیے طیارے بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے فرانس کو فوری امداد کی یقین دہانی کروانے کے بعد فوراً ہی جاسوس طیارے، ایک بحری جنگی جہاز اور فضا میں جنگی طیاروں کو ایندھن فراہم کرنےوالا ایک بڑا طیارہ شام میں کارروائی کے لیے بھیج دیا۔ اپنے ان اقدامات کے باعث جرمنی بھی دہشت گردوں کے نشانے پر آ چکا ہے اور جرمن حکام اپنے ہاں ایسے کسی بھی واقعے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔

یورپ میں بڑی تعداد میں دہشت گردانہ کارروائیاں

پیرس حملوں کے ساتھ ساتھ فرانس میں دیگر مقامات پر بھی کئی چھوٹے حملے ہوتے رہے۔ اس سال اپریل میں ایک خاتون ایک چرچ پر حملہ کرنے والے ایک دہشت گرد کی گولیوں کا نشانہ بن کر ہلاک ہو گئی۔ جون میں شہر لیوں کے قریب گیس کا ایک کارخانہ دہشت گردی کا نشانہ بننے سے بال بال بچا۔ اگست میں تیز رفتار ریل گاڑی ’تھالِس‘ میں مسافروں نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمان دہشت گردوں کو اپنی کارروائی کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے ہی دبوچ لیا۔

Schnellzug Thalys
اگست میں تیز رفتار ریل گاڑی ’تھالِس‘ میں مسافروں نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمان دہشت گردوں کو اپنی کارروائی کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے ہی دبوچ لیاتصویر: picture-alliance/dpa/I. Langsdon

اس سال فروری میں ڈنمارک میں ایک ثقافتی مرکز اور ایک یہودی عبادت خانے پر حملے میں دو افراد جان سے گئے۔ برلن اور لندن میں بھی ایسے حملے ہوئے، جن کے ڈانڈے دہشت گردوں سے ملتے تھے۔ ترکی میں ہونے والے حملوں میں اور مصری علاقے سینائی پر ایک مسافر بردار طیارے کی تباہی کے نتیجے میں سینکڑوں افراد مارے گئے اور یوں دہشت گردوں کی درندگی کا شکار ہوئے۔

یورپ میں سخت تر حفاظتی انتظامات

یورپ میں پے در پے ہونے والے واقعات کے باعث حفاظتی انتظامات زیادہ سخت بنا دیے گئے۔ بڑی تعداد میں پناہ کی تلاش میں آنے والوں اور یورپی پاسپورٹ رکھنے والے دہشت گردوں کے بلا روک ٹوک ایک سے دوسرے ملک سفر کے خدشات کے باعث یورپی یونین کے رکن ممالک کی باہمی سرحدوں پر دباؤ میں بہت اضافہ ہو گیا۔ جیسا کہ جرمن وزیر داخلہ تھامس ڈے میزیئر نے کہا، ہزاروں یورپی نوجوان شام جا کر داعش کے جنگجوؤں کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں اور وہاں سے یورپ کے اندر اہداف پر حملے منظم کر رہے ہیں۔ اس طرح کے رجحانات کو روکنے کے لیے آئندہ طیاروں کے مسافروں کے کوائف محفوظ رکھنے اور اُن کی جانچ پڑتال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یونان، بلغاریہ یا پھر اٹلی وغیرہ پر دباؤ کم کرنے کے لیے بیرونی سرحدوں کی مشترکہ حفاظت کے منصوبے بنائے گئے ہیں۔

Belgien Sicherheitsmaßnahmen in Brüssel
برسلز میں پولیس کی کارروائی کے دوران چند روز کے لیے زیر زمین ریلوے کا نظام، کاروباری مراکز، اسکول اور یونیورسٹیاں بند ہو گئے تھےتصویر: Reuters/Y. Herman

بیلجیم: دہشت گردی کا مرکز

پیرس میں حملہ کرنے والے تقریباً تمام افراد کے سرے بیلجیم سے جا کر مل رہے ہیں۔ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ برسلز ہی میں ان حملوں کی پوری تیاریاں عمل میں لائی گئیں۔ اس ملک کی پولیس کو کئی ایک دہشت گردوں کو پکڑنے میں کامیابی حاصل ہوئی تاہم ایک بڑا سرغنہ بدستور مفرور ہے۔ برسلز میں پولیس کی کارروائی کے دوران چند روز کے لیے زیر زمین ریلوے کا نظام، کاروباری مراکز، اسکول اور یونیورسٹیاں بند ہو گئے تھے۔ اب وہاں پھر سے کاروبارِ زندگی معمول پر آ چکا ہے۔ اب اس سال کے اواخر سے اس ملک کی سڑکوں پر فوج گشت کر رہی ہے۔ اخبارات میں بیلجیم کو ’ایک ناکام ریاست‘ بھی کہا جا رہا ہے اور یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ آیا سڑکوں پر گشت کرتی فوج نام نہاد ’جہادیوں‘ کو روکنے میں کامیاب ہو سکے گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید