1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوئٹزرلینڈ میں سیاسی پناہ کی درخواستوں میں نمایاں کمی

عاطف بلوچ، روئٹرز
24 جنوری 2017

سوئٹزرلینڈ میں گزشتہ برس سن 2015ء کے مقابلے میں سیاسی پناہ کی درخواستوں میں 31 فیصد کمی دیکھی گئی۔ اس کی بڑی وجہ مہاجرین کے لیے بلقان ریاستوں کی جانب سے اپنی قومی سرحدوں کی بندش تھی۔

https://p.dw.com/p/2WIaq
Italien Flüchtlinge in Rom
تصویر: picture alliance/Pacific Press/M. Debets

سوئٹرزلینڈ کی ایجنسی برائے مہاجرین SEM کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ سن 2016 میں ملک میں 27 ہزار دو سو افراد نے سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں، جو سن 2015 کے مقابلے میں 31 فیصد کم ہے۔

بلقان خطہ ہی سن 2015ء میں مشرقِ وسطیٰ، ایشیا، اور افریقہ سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن نے استعمال کر کے مغربی یورپ تک رسائی حاصل کی تھی، تاہم یہ راستہ بند ہو جانے کے بعد مغربی اور شمالی یورپی ممالک پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔

سوئٹزرلینڈ کے ادارہ برائے مہاجرین نے پیش گوئی کی ہے کہ رواں برس ملک میں سیاسی پناہ کے لیے درخواستیں جمع کرانے والے افراد کی تعداد ساڑھے چوبیس ہزار تک ہو سکتی ہے، جس میں زیادہ تر وہ افراد ہیں، جو بحیرہء روم عبور کر کے یورپی یونین میں داخل ہو رہے ہیں، تاہم اس ایجنسی نے خبردار بھی کیا ہے کہ اگر بحیرہء روم کا راستہ بند نہ کیا گیا، تو سوئٹزرلینڈ پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد 32 ہزار تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس ایجنسی نے یورپی یونین اور ترکی کے درمیان معاہدے پر کاربند رہنے کو بھی مہاجرین کے بہاؤ میں کمی سے مشروط کیا ہے۔

گزشتہ برس دسمبر میں سوئٹرزلینڈ میں ایک برس قبل اسی ماہ کے مقابلے میں سیاسی پناہ کی درخواستوں میں 64 فیصد تک کمی دکھی گئی۔ سوئٹرزلینڈ نے گزشتہ موسم گرما میں اٹلی کی سرحد پر بھی جانچ پڑتال کا سخت عمل متعارف کروایا تھا، جس کا مقصد بغیر سفری دستاویزات تارکین وطن کو ملک میں داخلے سے روکنا تھا۔

یہ بات اہم ہے کہ سن 2015 سے یورپ پہنچنے والے قریب ایک اعشاریہ تین ملین تارکین وطن میں سے سوئٹزرلینڈ نے ایک نہایت قلیل تعداد ہی کو اپنے ہاں جگہ دی ہے۔

سوئس ایجنسی برائے مہاجرین کے مطابق ملک میں سیاسی پناہ کی درخواستوں کے اعتبار سے اریٹریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن سرفہرست ہیں، جب کہ اس کے بعد افغانستان، شام، صومالیہ، سری لنکا اور عراق کا نمبر آتا ہے۔

حکام کاکہنا ہے کہ گزشتہ برس جمع کرائی گئی سیاسی پناہ کی 31 ہزار درخواستوں میں سے صرف 23 فیصد کو پناہ دی گئی، جب کہ ملک میں عارضی قیام کی اجازت کو بھی شامل کر لیا جائے، تو یہ تعداد 49 فیصد بنتی ہے۔