1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوات معاہدے پر بھارت کی تشویش

افتخار گیلانی، نئی دہلی18 فروری 2009

بھارت نے حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان پاکستان کے وادیء سوات میں ہونے والے امن معاہدے پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے عالمی برادری کو اس کے دور رس مضمرات سے متنبہ کیا ہے اورطالبان کو انسانیت کے لئے خطرہ قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/Gwud
بھارتی وزیر خارجہ پرنب مکھر جیتصویر: AP

بھارتی وزیر خارجہ اور قائم مقام وزیر اعظم پرنب مکھرجی نے اس معاہدے کو افسوس ناک قرار دیا۔ انہوں نے کہا’’ یہ ایک حقیقت ہے کہ طالبان ایک دہشت گرد دتنظیم کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ وہ تباہی اور تشدد کے علاوہ کسی چیز پر یقین نہیں رکھتے ۔ میرا تجزیہ ہے کہ طالبان انسانیت اور تہذیب کے لئے خطرہ ہیں۔ ‘‘

انہوں نے اس معاہدے پر بھارت کی تشویش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے جنگجووں کو محفوظ پناہ گاہ مل جائے گی اور وہ بھارت کی سلامتی کے لئے خطرہ پیدا کرسکتے ہیں۔

بھارتی پارلیمان میں بھی آج حکمران اور اپوزیشن دونوں ہی اراکین نے سوات میں ہونے والی تازہ پیش رفت پر تشویش کا اظہار کیا۔ اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق مرکزی وزیر ارون جیٹلی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس پیش رفت کا موثر توڑ کرے۔ انہوں نے کہا ’’ طالبان پاکستان میں بالادستی حاصل کررہے ہیں اور سوات وادی میں طالبنائزیشن بھارت کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔‘‘

سابق وزیر نے کہا ’’ وادیء سوات بھارت کے سرحدی شہر امرتسر سے سڑک کے راستے صرف پانچ گھنٹے کی دوری پر ہے۔ طالبان ہمارے دروازے پر دستک دے رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ ان سے ہمیں بظاہر کوئی خطرہ نظر نہ آرہا ہو لیکن نظریات کو سرحدوں کے پار پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔

ادھر بھارتی وزارت خارجہ کے افسران کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نیوکلیائی ہتھیار اسلامی شدت پسندوں کے ہاتھوں میں جانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ وزارت خارجہ کے افسران سوات امن معاہدے کو پاکستانی آرمی کی خودسپردگی قرار دے رہے ہیں۔ دوسری طرف بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے بھی اس معاہدے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں طالبان کے عروج سے بھارت میں ان کے ہم خیال عناصر کو تقویت ملے گی۔

وزار ت خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت سوات امن معاہدے کے خلاف دنیا بھر میں سفارتی مہم شروع کررہا ہے ۔ اس مہم کے دوران مغربی طاقتوں کو بتایا جائے گا کہ پاکستان میں کیمیاوی، جراثیمی اور نیوکلیائی ہتھیاروں کے اسلامی شدت پسندوں کے ہاتھوں میں جانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ بھارت میں اسٹریٹیجک امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کو چاہئے کہ وہ پاکستان کے قریبی حلیفوں مثلا چین اور سعودی عرب پر زیادہ توجہ دے اور انہیں یہ باور کرائے کہ سوات کا امن معاہدہ نہ صرف اس خطے اور عالمی امن کے لئے بلکہ خود ان ملکوں کے لئے بھی خطرہ ہے۔خیال رہے کہ امریکی صدر باراک اوباما کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہال بروک نے پچھلے دنوں نئی دہلی میں اپنے دورے کے دوران اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں سرگرم طالبان پاکستان، بھارت اور امریکہ کے لئے مشترکہ خطرہ ہیں۔

اس دوران وزیر خارجہ پرنب مکھرجی نے پارلیمان میں صدر کی تقریر شکریہ کی تحریک کا جواب دیتے ہوئے ممبئی دہشت گردانہ حملوں کے حوالے سے پاکستان کے رویے پر ایک بار پھر نکتہ چینی کی۔ انہوں نے کہا کہ ’’حکمراں اور اپوزیشن کے جوا راکین بھی یہاں بیٹھے ہیں وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم نے کشیدگی کو ہوا نہیں دی، ہم نے ایک بھی فوجی جوان کو موبیلائز نہیں کیا، ہم نے سرحد پرا یک بھی بارودی سرنگ نصب نہیں کی۔ ہم نے پاکستان سے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ آپ کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔ نان اسٹیٹ ایکٹر آسمان سے نہیں آتے ہیں۔ وہ آپ کی تنصیبات کا استعمال کررہے ہیں۔ آپ ا ن کی نشاندہی کریں اور انہیں ختم کریں۔‘‘

پرنب مکھرجی نے پاکستان سے مزید کہاکہ ’’براہ مہربانی آپ توجہ ہٹانے کی کوشش نہ کریں۔ دہشت گردانہ حملہ بھارت کی خودمختاری پر حملہ ہے۔ صرف اسی مرتبہ نہیں بلکہ جب کابل میں ہمارے مشن پر حملہ ہوا تھا تب بھی یہ بھارت کی خودمختاری پر حملہ تھا۔ا س حملے کے فوراَ ہم نے پاکستان سے بات کی تو اس نے کہا کہ وہ اس کی تفتیش کریں گے اور اس کی تفصیلات سے آگاہ کریں گے لیکن گذشتہ اگست کے بعدسے اب تک ایسا نہیں ہوا ہے۔‘‘ پرنب مکھرجی نے تاہم پاکستان پر کسی بھی حملے کے امکان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔

دریں اثنا بھارتی بحریہ کے سربراہ ایڈمیرل سریش مہتہ نے ممبئی حملوں کے مدنظر بھارت کے ساحلوں پر سیکیورٹی میں اضافہ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انتہاپسند عناصر کارگو جہازوں کو نیوکلیائی ہتھیار لانے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔