1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوات میں نظام عدل، بے یقینی بدستور قائم

2 مارچ 2009

صوبہ سرحد کے وزیراعلی امیر حیدر خان ہوتی نے سوات کے باشندوں کویقین دلایا ہے کہ صدر آصف علی زرداری ملک وقوم کی خاطر ملاکنڈمیں نظام عدل ریگولیشن پردستخط کردیں گے۔

https://p.dw.com/p/H4Dw
سوات میں دو سال تک جاری رہنے والی جنگ میں انفراسکچر کو شدید نقصان پہنچا ہےتصویر: AP

وزیراعلیٰ سرحد سخت سیکورٹی میں سوات پہنچے ہیں جہاں انہوں نے دو سالہ آپریشن کے دوان متاثرہ افراد اور علاقہ کے عمائدین کے ایک مشترکہ جرگے سے خطاب کیا ہے اور بعدازاں متاثرین میں امدادی چیک تقسیم کئے ملاکنڈ ڈویژن میں کالعدم نفاذ شریعت کی وساطت سے امن معاہدہ کرنے کے بعد پہلی مرتبہ سوات کا دورہ کرنے والے وزیراعلیٰ سرحد کا کہنا ہے کہ سوات میں بدامنی کوبڑھاؤا دینے اوریہاں کے امن کو تباہ کرنے میں بیرونی عناصر کا ہاتھ ہے تاہم حکومت انہیں بے نقاب کرنے اورسوات میں پائیدار امن کے قیام کے لئے اقدامات اٹھارہی ہے۔

وزیراعلیٰ سرحد کا کہنا ہےکہ ’’ تمام لوگ سوات میں امن کے قیام کے لئے اپنا کردارادا کریں سوات میں موجود سیکورٹی فورسز اس وقت کاروائی کرں گی جب دوسری جانب سے کسی قسم کے مزاحمت ہوورنہ وہ کارروائی کرنے میں پہل نہیں کریں گے۔‘‘

صوبائی حکومت کی بار بار یقین دہانی کے باوجود سوات سے نقل مکانی کرنے والے واپس جانے کے لئے تیار نہیں ہیں سوات کے دو سالہ کشیدگی کے دوران دس لاکھ افراد نے نقل مکانی کی ہے جس میں اب بھی آٹھ لاکھ افراد سے ذیادہ سوات سے باہر رہائش پذیر ہیں امن معاہدے اورمذاکرات کے باوجود سوات میں بدستور اغواء اور قتل کے واقعات رونما ہورہے ہیں اگرچہ ان واقعات میں کمی دیکھنے میں آئی ہے لیکن ہردوسرے دن کو کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ضرور رونما ہوتا ہے جو سوات واپسی کا ارادہ کرنے والوں کو اپنی رائے بدلنے پرمجبور کردیتا ہے ایک سال قبل اغواء ہونے والے سیکورٹی فورسز کے مقامی کمانڈر حسام الدین کوان کے پانچ ساتھیوں سمیت آج رہائی ملی ہے انہیں مینگورہ سے جاتے ہوئے قمبر کے قریب اغواء کیاگیا تھا۔

سوات میں تمام بوائز سکول کھولنے کااعلان کیاگیا ہے تاہم سکولوں میں طلباء کی حاضر ی انتہائی کم رہی اوراسکی بنیادی وجہ لوگوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہے انتظامیہ کا کہنا ہے کہ طالبات کے سکول مارچ کے آخر میں کھولے جائیں گے جب کہ سترہ مارچ کو امتحان دینے والی طالبات مکمل پردے میں امتحان دے سکتی ہیں۔ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ دوسال کے دوران سوات میں ہونے والے نقصان کا تخمینہ 32ارب 21کروڑ سے زیادہ ہے۔ صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ ’’ امن کے قیام کے حوالے سے کئی اقدامات اٹھائیں گے نقصانات کاجو تخمینہ لگایا گیا وہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے دوسال میں ہونے والے نقصانات اس سے بڑھ کر ہیں۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ امن قائم ہوتے ہی سوات میں ترقیاتی کاموں کا آغاز کردیا جائے گا۔

دوسری جانب کالعدم نفاذ شریعت کے امیر مولاناصوفی محمد نے گزشتہ روز نفاذ شریعت کے حوالے سے حکومتی اقدامات پرعدم اطمینان کااظہارکرتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ اگر پندرہ مارچ تک طالبان کے قید ی رہا نہیں کئے گئے اور جاری عدالتوں کو بند کرکے شرعی عدالتوں کا قیام عمل میں نہ لایاگیا تو وہ احتجاج شروع کریں گے یہ بات قابل ذکر ہے کہ مئی میں طالبان اورصوبائی حکومت کا امن معاہدہ بھی طالبان کے بعض ساتھیوں کی رہائی میں تاخیری کی وجہ سے ٹوٹ گیا تھا جب کہ اب بھی قیدیوں میں کئی لوگ ایسے ہیں جن کی رہائی میں صوبائی حکومت کوقانونی پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔ اسی طرح نظام عدل ریگولیشن کانفاذ بھی مرکزی حکومت کی منظوری کی مرہون منت ہے۔