1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سورج سے 6.4 ارب گنا بھاری بلیک ہول

رپورٹ: امجد علی، ادارت: شامل شمس11 جون 2009

ایک جرمن ماہرِ طبیعیات نے اپنے ایک امریکی ساتھی کے ساتھ مل کر خلاء میں تاحال معلوم سب سے بڑا بلیک ہول دریافت کیا ہے۔ اِس دریافت کے نتیجے میں دیگر بلیک ہولز کے بارے میں زیادہ بہتر اندازے قائم کئے جا سکیں گے۔

https://p.dw.com/p/I7EA
تصویر: AP/NASA/CXC/M.Weiss

ماکس پلانک انسٹی ٹیوٹ برائے غیر ارضی طبیعیات سے تعلق رکھنے والے جرمن سائنسدان ژینز تھوماس نے رواں ہفتے امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر پاساڈینا میں ایک کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بلیک ہول یا روزنِ سیاہ ہمارے نظامِ شمسی سے قریب M87 نامی کہکشاں میں واقع ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ اِس بلیک ہول کا سائز پیمائش کے جدید ترین طریقوں کی مدد سے ماپا گیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے سورج کے مقابلے میں 6,4 ارب گنا بھاری ہے اور یوں اب تک کے اندازوں کے مقابلے میں دو تا تین گنا زیادہ بڑا ہے۔

ژینز تھوماس کے مطابق کمپیوٹر ماڈلز کی مدد سے کی جانے والی اِس پیمائش کے نتیجے میں ہمسایہ کہکشاؤں میں پائے جانے والے اُن دیگر بلیک ہولز یا سیاہ روزنوں کے حجم کے بارے میں اندازے قائم کرنا ممکن ہو سکے گا، جن کا سائز اب تک کہیں کم سمجھا جاتا رہا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ کہکشاؤں کی تشکیل اور اُن کے پھیلاؤ کے بارے میں بھی اہم معلومات مل سکیں گی۔

Internationales Jahr der Astronomie Schwarzes Loch
تصویر: AP

جرمن ماہرِ طبیعیات ژینز تھوماس نے اپنی دریافت کے بارے میں معلومات ٹیکساس یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے اپنے امریکی ساتھی سائنسدان کارل گیبہارٹ کے ساتھ مل کر پاساڈینا منعقدہ کانگریس کے سامنے پیش کیں۔ اُنہوں نے کہا، اِس دریافت سے یہ بھی پتہ چل سکے گا کہ اتنے بڑے حجم کے حامل بلیک ہولز کا، جن کی کشش ثقل سے روشنی بھی نہیں بچ سکتی، اپنی کہکشاؤں کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ ژینز تھوماس کے الفاظ میں ’’ اگر بلیک ہولز کا حجم تبدیل کر دیا جائے تو بلیک ہول اور گلیکسی کے درمیان تناسب بھی تبدیل ہو جانا چاہیے۔‘‘

اپنی پیمائش کے لئے اِن دونوں سائنسدانوں نے ٹیکساس یونیورسٹی کا ’’لون سٹار سسٹم‘‘ نامی سپر کمپیوٹر استعمال کیا، جو ایک سیکنڈ میں باسٹھ ہزار ارب آپریشنز کا حساب لگا سکتا ہے اور یوں دُنیا کے تیز رفتار ترین کمپیوٹرز میں سے ایک ہے۔ دونوں سائنسدانوں کا تیار کردہ جائزہ اِس سال کے اواخر تک شائع کر دیا جائے گا۔