1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سونامی کے چار سال

ندیم گل26 دسمبر 2008

26 دسمبر 2004، انسانی تاریخ کا ایک ایسا المناک دن، جسے دُنیا کبھی بھلا نہ سکے گی!

https://p.dw.com/p/GNaM
خطرناک سمندری طوفان کے چار سال مکمل ہونے پر تھائی لینڈ میں بھی سونامی کے متاثرین کی یاد میں ایک تقریب منائی گئیتصویر: AP

اس روز بحرہند کی ساحلی پٹی پر واقع تقریبا ایک درجن ایشیائی ممالک پر سونامی کی لہروں نے جو قہر ڈھایا، اس کے نتیجے میں لمحوں میں ہی تقریبا دولاکھ 20 ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔

Indonesien Tsunami Jahrestag
یہ خاتون مسجد میں عبادت کے دوران سونامی میں ہلاک ہونے والے افراد کے لئے پرنم آنکھوں سے دعائیں مانگ رہی ہیںتصویر: AP

جمعہ کو انڈونیشیا سے بھارت تک اس تباہ کن قدرتی آفت کے چار سال مکمل ہونے پر خصوصی تقریبات منعقد کی گئیں۔ سونامی کا شکار بننے والوں کی یاد اور متاثرین کی دلجوئی کے لئے سینکڑوں لوگ ساحلوں پر جمع ہوئے جبکہ دیگر سینکڑوں افراد نے خصوصی عبادات میں شرکت کی۔

انڈونیشیا سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ اس کے صوبہ آچے میں ہی ایک لاکھ 68 ہزار افراد سمندری لہروں کا نشانہ بنے تھے۔ وہاں کے ساحل پر واقع تباہ شدہ فوجی اڈے پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب میں مقامی حکومت کے سربراہ راملی منصور نے کہا کہ وہ سونامی کے شہدا کی یاد میں جمع ہوئے ہیں۔

Banda Aceh nach dem Tsunami Indonesien im Januar 2005
انڈونیشیا میں سونامی طوفان کی تباہ کاریوں کا ایک منظرتصویر: picture-alliance / dpa

اس تقریب میں سونامی کے تقریبا 50 بے گھر متاثرین نے حکام کے خلاف مظاہرہ بھی کیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت نے انہیں مشکل وقت میں تنہا چھوڑ دیا ہے۔

سری لنکا میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں دومنٹ کی خاموشی اختیار کرنے کا سرکاری اعلامیہ جاری کیا گیا تھا۔ اس سمندری آفت کے نتیجے میں اس جنوبی ایشیائی ریاست میں 31 ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ سری لنکن حکام کے مطابق چار سال قبل کے سونامی کے بعد ملک میں 50 وارننگ سسٹمز لگانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا جن میں سے 25 نصب کئے جا چکے ہیں۔

20 سال پہلے سری لنکا کے چھوٹے سے شہر گالے میں ایک کپتان ہورسٹ اَینڈلِش نے سیلرز کے لئے ایک اسکول قائم کیا تھا۔ انہوں نے سونامی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا: ’’مَیں اپنے دفتر میں کمپیوٹر پر بیٹھا تھا، جب ہمارا ایک مالی بھاگتا ہوا آیا اور اُس نے بتایا کہ پانی آ رہا ہے، پانی آ رہا ہے۔ مَیں نے باہر بالکنی میں جا کر دیکھا تو زمین کی سطح سےتقریباً چھ میٹر بلند ایک آبی لہر ساحل کی طرف بڑھ رہی تھی۔ یہ پہلی لہر پوری قوت کے ساتھ خشکی سے ٹکرائی اور اِس نے ایک آن میں سب کچھ تباہ کر دیا۔‘‘

سری لنکا کی نوجوان خاتون چندرانی بھی چار سال پہلے کی اِن ہولناک لہروں کو نہیں بھولی، جن سے بھاگ کر اُس نے تو ایک مندر میں پناہ لے لی تھی لیکن اُس کی ڈیڑھ سالہ بیٹی کو لہریں اپنے ساتھ بہا کر لے گئیں۔ لیکن جھونپڑی کی چھت پر بیٹھے اُس کے شوہر نے بیٹی کو دیکھ لیا۔ وہ بتاتی ہے: ’’میرے شوہر نے دیکھ لیا کہ کیسے پانی اُسے اپنے ساتھ نیچے لے کر جا رہا ہے۔ اُس نے فوراً چھلانگ لگا دی اور چار بار غوطہ لگانے کے بعد اُس نے بچی کو نکال لیا۔‘‘

آج یہی بچی پانچ سال کی ہے۔

اُدھر بھارت میں بھی چار سال قبل آنے والے سونامی میں ہلاک ہونے والے 12 ہزار افراد کو یاد کیا گیا۔ اس کی جنوبی ریاست تامل ناڈو میں ہی 6500 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ تھائی لینڈ میں بھی، جہاں سونامی نے پانچ ہزار سے زائد افراد کی جان لی تھی، ایسی ہی تقریبات منعقد کی گئیں۔