1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سويڈن ميں مہاجرين، حملوں کے خوف ميں مبتلا

عاصم سليم25 نومبر 2015

انسانی حقوق کے اعلٰی معيارات کے حامل ملک سويڈن ميں رواں سال پناہ گزينوں کے کيمپوں پر پچیس حملے ہو چکے ہيں۔ اب ان کیمپوں کے مہاجرین نئے حملوں کے خوف کا شکار ہيں۔

https://p.dw.com/p/1HCFT
تصویر: picture alliance / dpa

’’ميں اپنے کمرے سے باہر يہ ديکھنے آيا کہ کيا ہو رہا ہے اور آگ ديکھتے ہی فوراً باہر بھاگ گيا۔‘‘ يہ الفاظ افريقی ملک ايتھوپيا سے تعلق رکھنے والے تيرہ سالہ پناہ گزين داوت کے ہيں، جو اس وقت يورپی ملک سويڈن ميں مہاجرين کی ايک عارضی رہائش گاہ ميں اپنے شب و روز گزار رہا ہے۔ کيمپ نذر آتش کيے جانے کے واقعے نے اس کے اندر ايک ايسا خوف پيدا کر ديا ہے کہ وہ اب يورپ ميں ايک محفوظ زندگی گزارنے کے اپنے تصور پر پوری طرح يقين نہيں رکھتا۔

اسکينڈينيويا کے ملک سويڈن ميں سال رواں کے دوران اب تک پناہ گزينوں کے مراکز کو نذر آتش کيے جانے کے پچيس واقعات رونما ہو چکے ہيں، جن ميں يا تو وہ مراکز راکھ کے ڈھير ہو گئے يا انہيں شديد نقصانات پہنچے۔ اکثر اوقات يہ حملے رات کی تاريکی ميں کيے گئے، جب جنگ زدہ علاقوں سے مہاجرت کرنے والے پناہ گزین يورپی ملک کے ایک کیمپ میں گہری نيند ميں سو رہے تھے۔ سويڈن کے وزير اعظم اسٹيفان لوفوَین نے يقين دہانی کرائی ہے کہ ملکی ساکھ کو منفی انداز سے متاثر کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

سويڈن ميں يہ حملے اکثريتی طور پر دارالحکومت اسٹاک ہوم سے جنوب کے ديہی علاقوں ميں کيے گئے، جہاں انتہائی دائيں بازو کے خيالات کے حامل سیاسی جماعت سويڈش ڈيموکريٹس کی جڑیں گہری ہیں۔ جنوبی شہر لُنڈ ميں واقع کیمپ میں مقیم داوت کا کہنا ہے کہ اس کے کيمپ پر حملے کے نتيجے ميں وہ اور تيرہ ديگر پناہ گزين سکتے ميں رہ گئے تھے۔ وہ بتاتا ہے،’’لوگ خوفزدہ تھے۔‘‘ چھبيس اکتوبر کی رات وہ لُنڈ ميں موجود مہاجرين کے کيمپ ميں تھا کہ ايک دوسرے کمرے سے دھواں آنے لگا۔ اگرچہ اس کيمپ ميں موجود لڑکوں نے جلد ہی آگ پر قابو پا ليا تاہم يہ واقعہ ان کی نفسيات پر گہرے اثرات مرتب کر گيا۔ ان کے ليے يہ بات ناقابل يقين تھی کہ برداشت اور انسانی حقوق کے علمبردار ملک میں بھی ایسا ہو سکتا ہے۔

سويڈن کے وزير اعظم اسٹيفان لوفوَین
سويڈن کے وزير اعظم اسٹيفان لوفوَینتصویر: picture alliance/IBL Schweden

سويڈن ميں مہاجرين کی عارضی رہائش گاہوں کو نذر آتش کيے جانے کے واقعات ميں اضافہ وہاں پہنچنے والے مہاجرين کی تعداد ميں اضافے کے ساتھ بڑھا ہے۔ سال رواں کے اختتام تک 190,000 پناہ گزين سويڈن پہنچ چکے ہوں گے جبکہ اندازوں کے مطابق آئندہ برس بھی قريب 170,000 تارکين وطن سياسی پناہ کی تلاش ميں سويڈن کا رخ کريں گے۔

انتہائی دائيں بازو کے نظریات کی حامل سياسی جماعت سويڈن ڈيموکريٹس نے ملک ميں مہاجرين کی آمد کو ’قبضے‘ سے تعبیر کيا ہے۔ تاہم پارٹی کے رہنما Jimmie Akesson نے تمام پرتشدد واقعات کی مذمت کی ہے۔