1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوچی کی رہائی کا مطالبہ

1 جون 2009

دوسرے ممالک کو چاہئے کہ وہ میانمار کے اندرونی معا ملات میں مداخلت سے پرہیز کریں، بصورت دیگر خطے کی سلامتی اور امن کو خطرات کا سامنا ہوگا۔۔ برما کے نائب وزیر دفاع

https://p.dw.com/p/I1c7
تصویر: AP

گزشتہ روز سنگاپورمیں اختتام پذیر ہونے والی سہ روزہ سلامتی کانفرنس کے موقع پرعالمی برادری نے ایک بار پھر زیر حراست خاتون اپوزیشن لیڈرآنگ سان سُوچی کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ برما حکومت نے اِس مطالبے کو اپنے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے رد کردیا ہے۔ ساتھ ہی برما کی حکومت نے سو چی پر لگے الزامات پر زور دیا۔

سنگاپور منعقدہ 27 ممالک کی دفاع کی وزارتوں کے نمائندوں پرمشتمل سلامتی کانفرنس کے ایجنڈے میں شمالی کوریا کی جارحانہ پالیسی سر فہرست نہیں تھی بلکہ اس کے اختتام پرمرکزی حیثیت برما کی فوجی حکومت کے موضوع کو حاصل تھی، جسے عالمی برادری خاص طور سے مغرب کی طرف سے کی جانے والی تنقید کا دفاع کرنا تھا۔ اِس سے قبل امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ واشنگٹن کسی صورت بھی ایٹمی اسلحے سے لیس شمالی کوریا کو تسلیم نہیں کرے گا۔ جبکہ برما سے متعلق گیٹس نے کہا:امریکی حکومت کا رنگون حکومت سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ بشمول اپوزیشن لیڈرآنگ سان سُوچی کے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرے۔ رابرٹ گیٹس کے مطابق برما ان معا ملات کی وجہ سے خطے کا سب سے تنہا رہ جانے والا ملک ہے۔


برطانوی وزیر برائے بین الاقوامی دفاع اور سلامتی امور Ann Taylor نے بھی سوچی کی رہائی کا پرزورمطالبہ کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تمام دنیا کے انسان سوچی اور برما کے عوام کی حمایت کر رہے ہیں اور وہ برما کے جرنیلوں سے یہ کہنا چاہتے ہیں، یہی وقت ہے، ملک کو جمہوریت کی طرف گامزن کرنے کا۔ اس سایسی تبدیلی کا آغازسوچی کی رہائی سے ہو سکتا ہے۔

Birma Aung San Suu Kyi
میانمار میں سوچی کی رہائی کے لئے ہونے والے ایک مظاہرے کا منظرتصویر: AP

63 سالہ نوبیل امن انعام یافتہ آنگ سان سُوچی پر مقدمہ چل رہا ہے۔ برما کی فوجی حکومت کی طرف سے سوچی پر نظر بندی کے احکامات کی خلاف ورزی اور ایک امریکی باشندے John WilliamYettaw کوخفیہ طورپراپنے گھر میں قیام کروانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ سوچی کا گھرایک جھیل پرواقع ہے۔ یہ امریکی شہری غالباً مئی کے اوائل میں تیر کر سوچی کے گھر تک پہنچا تھا۔ تاہم اپوزیشن لیڈر آنگ سان سُوچی نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بے قصور ہیں۔ ان پر چلنے والے مقدمات کی پہلی سماعت میں ہی انہوں نے کہا تھا کہ امریکی شہری John WilliamYettaw ان کی مرضی کے خلاف زبردستی ان کے گھر میں داخل ہوا تھا اورانھوں نے اسے دو راتیں اپنے گھر میں بسر کرنے کی اجازت فقط اس لئے دی تھی کہ اس نے کہا تھا کہ وہ بہت تھکا ہوا اور ناتواں ہے اورفوراً سفر کرنے کے قابل نہیں ہے۔

اگر سوچی پر لگے الزامات ثابت ہوگئے تو انہیں 5 سال تک کی سزائے قید ہو سکتی ہے۔ اس طرح وہ برما میں اگلے سال منعقد ہونے والے انتخابات میں حصہ نہیں لے پائیں گی۔ سوچی کی طرف سے مقدمے کے آخری دلائل پیر کو سامنے آنا تھے تاہم اس کاروائی کو ملتوی کر دیا گیا ہے ۔ اب یہ آئندہ جمعہ 5 جون کو عمل میں لائی جائے گی۔ عالمی سطح پر برما کے اس عدالتی مقدمے کی کارروائی کو ایک ڈھونگ قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب برما کی فوجی حکومت ہر قسم کی بیرونی مداخلت کی مذمت کر رہی ہے۔

Birma / Aung San Suu Kyi auf Poster
آنگ سان سوچیتصویر: AP

برما کے نائب وزیر دفاع Aye Mint کاکہنا ہے کہ اس میں شک وشبہے کی کوئی گنجائش نہیں کہ سوچی امریکی شہری کو متعلقہ حکام کو مطلع کئے بغیراپنے گھر قیام کی اجازت دینے کے بارے میں دروغ گوئی سے کام لے رہی ہیں۔ اس لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ سوچی پر قانون کے مطابق مقدمہ چلایا جائے۔ دوسرے ممالک کو چاہئے کہ وہ میانمار کے اندرونی معا ملات میں مداخلت سے پرہیز کریں، بصورت دیگر خطے کی سلامتی اور امن کو خطرات کا سامنا ہوگا۔

سنگاپورمنعقدہ سلامتی کانفرنس جسے شنگریلا ڈائیلاگ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کے بہت سے شرکاء نے برما حکومت پر زور دیا کہ وہ سو چی سمیت 2100 دیگر سیاسی قیدیوں کو رہا کرے تاہم برما کی جانب کوئی مشترکہ پالیسی اختیار کرنے کے حوالےسے عالمی برادری منقسم نظرآرہی ہے ۔ ایک طرف مغربی ممالک برما کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگانا چاہتے ہیں تو دوسری جانب چین روس اور بھارت برما کے اتحادی کے طور پر برما کے فوجی جرنیلوں کے تجارتی ساتھی بنے ہوئے ہیں۔