1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سویڈن کی مصنفہ زارا اشٹریڈزبرگ برلن کے طباء کے ساتھ

25 اپریل 2011

38 سالہ زارا اشٹریڈزبرگ کا کہنا ہے کہ انہیں طالبعلموں کے ساتھ یہ محسوس ہو رہا ہے کہ وہ اُن کا ذہن پڑھ سکتے ہیں اور اُن کے خیالات کی دنیا کی سیر کر سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/113hS
زارا اشٹریڈزبرگتصویر: Laurent Denimal

برلن کی فری یونیورسٹی کا سیمینار روم رفتہ رفتہ بھرتا جا رہا ہے۔ زارا اشٹریڈزبرگ وہاں موجود ہیں اور سیمینار روم کے بلیک بورڈ کے سامنے کھڑی اپنی فائل کے اوراق پلٹ رہی ہیں۔ سویڈن سے تعلق رکھنے والی یہ مصنفہ ایک پروجیکٹ کی تیاری کر رہی ہیں۔ زارا ہر بار سیمینار کی نشستوں کی مکمل تیاری کر کے آتی ہیں۔ اس بار Marilyn Monroe کی فلم ’Misfits‘ کی باری ہے۔ 1960ء میں بننے والی اس فلم میں مارلن منرو نے آخری بار اداکاری کی تھی۔ اس فلم کا جرمن نام Nicht gesellschaftsfähig ہے۔ اس فلم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ جو فلم کے مرکزی کردار ہیں وہ انضمام کی کوشش نہیں کرتے یا کرنا نہیں چاہتے۔ یہی وہ موضوع ہے جس بارے میں زارا اشٹریڈزبرگ نے اپنے زیادہ تر ناول لکھے ہیں اورتھیٹر تیار کیے ہیں اور اسی موضوع پر اب وہ فری یونیورسٹی میں سیمینار دے رہی ہیں۔

Buchcover Sara Stridsberg Traumfabrik
زارا اشٹریڈزبرگ کی مشہور کتاب Traum Fabrikتصویر: S.Fischer

اپنے سیمینار "Destroy She Says-Destruction, Alienation & Literature" میں 38 سالہ زارا اشٹریڈزبرگ برلن سے تعلق رکھنے والے اپنے طلباء کے ساتھ اسی موضوع پر تبادلہ خیال کررہی ہیں۔ زارا اشٹریڈزبرگ کا کہنا ہے کہ طالبعلموں کے ساتھ انہیں یہ محسوس ہو رہا ہے کہ وہ اُن کا ذہن پڑھ سکتے ہیں اور اُن کے خیالات کی دنیا کی سیر کر سکتے ہیں اور اس طرح زارا اشٹریڈزبرگ کے لیے اُن کے طلباء تحریک و تشویق کا منبع ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’یہ روایتی سیمینار نہیں ہے، اس میں کچھ بھی زبانی یاد نہیں کرنا پڑتا۔ یعنی یہ میری ایک کتاب کے عنوان Traum Fabrik جسے انگریزی میں’ فیکلٹی آف ڈریمز‘ کہہ سکتے ہیں، کی طرح ہے۔

Flash-Galerie Norman Foster Bibliothek Freie Universität Berlin
برلن کی فری یونیورسٹی کی لائبریریتصویر: picture-alliance/ dpa

زارا اشٹریڈزبرگ اپنے طلباء کے ساتھ اپنی اس کتاب کے مختلف پیراگرافس کے بارے میں بات چیت کرتی ہیں۔ ’فیکلٹی آف ڈریمز‘ زارا کی اب تک سب سے زیادہ عالمی شہرت حاصل کرنے والی کتاب ہے۔ اس میں زارا نے حقوق نسواں کی ایک انتہا پسند سرگوم Valerie Solanas کی زندگی کے بارے میں بیان کیا ہے۔ Solanas نے 1968ء میں Andy Warhol پر قاتلانہ حملے کی کوشش کی تھی۔ وہ کہتی ہے، ’ میرا خیال ہے میں اب تک جتنی بھی لڑکیوں سے ملی ہوں، اُن سب میں تم مجھے سب سے زیادہ مغموم دکھائی دیتی ہو۔ تاریکی میں کوئی رستہ دکھائی نہیں دیتا۔ بیان کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ میں تمہیں نہیں بتا سکتی کہ میں کتنی اُداس ہوں۔ اس کے علاوہ خیالات سوچے نہیں جا سکتے‘۔

Traum Fabrik یا ’فیکلٹی آف ڈریمز‘ کوئی سوانح حیات نہیں نہ ہی بہت زیادہ ادبی طریقے سے لکھی گئی ہے۔ بلکہ زارا نے اسے ایک ایسے فن یا آرٹ میں تحریر کیا ہے جو مختلف اشیاء کو ترتیب دے کر ایک خوشنما شکل میں تیار کیا جانے والا ’ کولاژ‘ کہلاتا ہے۔ اس میں اسکرپٹ رائٹنگ، شاعری، اور حوالہ جات شامل ہیں۔ چند حصے دستاویزی ہیں اور دیگر مفروضاتی۔ زارا اشٹریڈزبرگ خود اپنی اس طرز تصنیف کو تشدد اور شاعری کا امتزاج قرار دیتی ہیں۔ وہ فری یونیورسٹی کے سیمینار میں اپنے طلباء کے اندر تحریک پیدا کرنا چاہتی ہیں کہ وہ احساس بیگانگی کے بارے میں سوچیں، اس پر غور کریں۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید