1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سُوات میں سکھوں کے مسائل اور بھارتی انتخابات

گوہر نذیر گیلانی4 مئی 2009

بھارت میں انتخابات کے چوتھے مرحلے سے تین روز قبل کانگریس اور بی جے پی کے درمیان الفاظ کی جنگ اپنے عروج پر اس وقت پہنچی جب گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی نے وادی سُوات سے سکھوں کی ہجرت کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی۔

https://p.dw.com/p/HjEk
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ، کانگریس صدر سونیا گاندھی اور وزیر خارجہ پرنب مکھرجیتصویر: AP

بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر نریندر مودی نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان کے خلاف جاری فوجی آپریشن کے باعث وہاں سے متعدد سکھ خاندانوں کی نقل مکانی پر بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ سے کہا کہ انہیں اس معاملے پر’’خاموش نہیں رہنا چاہیے۔‘‘ نریندر مودی نے پاکستان کی وادیء سُوات میں شریعت کے نفاذ اور وہاں سکھ اقلیت کو درپیش مسائل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر من موہن سنگہ سے مخاطب ہوکر کہا: ’’پردھان منتری جی، آپ تو ایک سردار ہیں، سردار، قرض چکانے کا موقع ہے، کچھ تو بولیے، کچھ تو کہیے۔‘‘

Ministerpräsident des indischen Bundesstaats Gujrat und BJP-Politiker Narendra Modi
بھارتی ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ اور بی جے پی کے اہم رہنما نریندر مودی ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: UNI

بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر سنگھ نے ایک چناوٴ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے، دبے الفاظ میں ہی سہی، بھارتیہ جنتا پارٹی پرجوابی وار کیا۔ من موہن سنگھ نے کہا کہ جو جماعت ’’مذہب کی بنیاد پر سیاست کرتی ہو وہ ہرگز ملک کو آگے نہیں لے جاسکتی ہے۔‘‘

من موہن سنگھ نے سُوات میں سکھوں کو درپیش مسائل پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں پاکستان سے ٹھوس کارروائی کرنے کی گذارش کی جاچکی ہے۔’’بھارت سرکار نے اس سلسلے میں پاکستان سرکار سے ٹھوس کارروائی کرنے کو کہا ہے۔‘‘

Premierminister Indien Manmohan Singh
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ ووٹروں سے اپیل کررہے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ پھر کانگریس کی سربراہی والی مخلوط حکومت کے لئے ووٹ دیںتصویر: UNI

بھارتی وزیر اعظم نے مزید کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے دعوے تو بہت کرتی ہے لیکن بی جے پی کی سربراہی والے قومی جمہوری اتحاد NDA کا ریکارڈ سب کے سامنے ہے۔’’این ڈی اے کے دور حکومت میں ہی بھارتی پارلیمان پر دہشت گردانہ حملہ ہوا، لال قلعے، رگوناتھ مندر اور اکشردھام پر حملے ہوئے، جموّں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی پر حملہ ہوا، 1999ء میں جہاز ہائے جیک کے بدلے میں خطرناک دہشت گردوں کو رہا کرکے قندہار بھیجا گیا، اور اس وقت لال کرشن اڈوانی جی وزیر داخلہ تھے۔‘‘

Veteran L K Advani in Indien
بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس مرتبہ انتخابات میں لال کرشن اڈوانی کو وزیر اعظم کے عہدے کے لئے اپنے امیدوار کے طور پر پیش کیا ہےتصویر: UNI

دارالحکومت نئی دہلی کے مغربی علاقے ہری نگر میں ایک الیکشن ریلی سے خطاب کرتے ہوئے من موہن سنگھ نے لوگوں سے کہا کہ انہیں خود ہی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ بی جے پی کتنی طاقتور جماعت ہے۔

بھارت میں لوک سبھا انتخابات کے چوتھے مرحلے میں 85 نشستوں کے لئے جمعرات کے روز ووٹ ڈالے جائیں گے۔ تیرہ مئی کو انتخابات کا پانچواں اور آخری مرحلہ ہے جبکہ سولہ مئی کو الیکشن نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔

بھارت میں سولہ اپریل کو پارلیمان کی ایوان زیریں کے لئے انتخابات کے پہلے مرحلے کے تحت 124 نشستوں کے لئے ووٹ ڈالے گئے، تئیس اپریل کو دوسرے مرحلے میں 141 نشستوں کے لئے ووٹنگ ہوئی جبکہ تیس اپریل کو 107 سیٹوں کے لئے پولنگ ہوئی۔ ابھی ان انتخابات کے دو مزید مرحلے ہونے باقی ہیں۔

اس سے قبل بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کہا تھا کہ عام انتخابات میں کامیابی کی صورت میں متحدہ ترقی پسند اتحاد بائیں بازو کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے تیار ہے تاہم امریکہ کے ساتھ غیر عسکری ایٹمی ڈیل کو خطرہ پہنچنے نہیں دیا جائے گا۔

ڈاکٹر من موہن سنگھ کا کہنا تھا کہ کانگریس کی سربراہی والی UPA حکومت امریکہ کے ساتھ غیر عسکری جوہری معاہدے پر کوئی آنچ آنے نہیں دے گی کیوں کہ ان کے بقول یہ معاہدہ بھارت اور بھارتی عوام کی ترقی کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نے ان خیالات کا اظہار نجی ٹیلی ویژن چینل CNN-IBN کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران کیا تھا۔

BdT Wahlen in Indien
بہوجن سماج پارٹی کی رہنما مایاوتی کے حامی ان کی الیکشن تقریر غور سے سن رہے ہیںتصویر: AP

من موہن سنگھ نے اس انٹرویو میں مزید کہا تھا کہ وہ پاکستان کے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے ساتھ کشمیر سمیت کئی دیگر اہم مسائل کے حل کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے لیکن ’’پاکستان میں داخلی مسائل کی سنگینی کے باعث بات آگے نہیں بڑھ سکی تھی‘‘۔

سنگھ نے لوک سبھا انتخابات کے تین مرحلے گذرجانے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی ووٹرز کانگریس کی سربراہی والی حکومت کو ایک اور موقع ضرور دیں گے۔

بھارتی وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ یو پی اے اتحاد نے ملک کی ترقی کے لئے گذشتہ پانچ برسوں کے دوران بہت کچھ کیا ہے۔ سنگھ نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ غربت کے خاتمے اور زراعت کے شعبے میں مزید کام کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی اور بائیں بازو کی جماعت سی پی آئی۔ایم نے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی طرف سے اس انٹرویو میں کہی گئی متعدد باتوں پر شدید نکتہ چینی کی تھی۔