1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سکواش کورٹ پر پاکستان کا راج اب کیوں نہیں؟

6 نومبر 2009

ایک زمانہ تھا جب جہانگیر اور جان شیر خان جیسے کھلاڑیوں نے سکواش میں پاکستان کو عالمی سطح پر ایک منفرد پہچان دی تھی لیکن گزشتہ کئی برسوں سے صورتحال بالکل بدل چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/KQGl

سکواش میں گزشتہ ایک دہائی سے پاکستانی کھلاڑیوں کی پے درپے ناکامیوں نے نہ صرف اس کھیل کے شائقین کو بلکہ سکواش کے کورٹ پر راج کرنے والے سابق پاکستانی کھلاڑیوں کو بھی بے حد مایوس کردیا ہے۔

ہاشم خان، روشن خان، اَعظم خان، قمر زمان، جہانگیر خان اور پھرجان شیر خان سکواش کی دنیا کے وہ عظیم کھلاڑی رہے ہیں، جن کا نام تاریخ کبھی بھی فراموش نہیں کرےگی۔ سن 1970ء سے سن 1990ءکی دہائی کو سکواش کے حوالے سے پاکستان کا سنہرا دور یعنی ’’گولڈن پیریڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن سن1996ء میں جان شیر خان وہ آخری پاکستانی کھلاڑی تھے، جنہوں نے عالمی اوپن سکواش چیمپیئن شپ جیتی۔ اس کے بعد سے پاکستان کا کوئی کھلاڑی یہ مقام حاصل نہیں کر پایا۔

ماضی کے ورلڈ کلاس کھلاڑی اور پاکستان سکواش فیڈریشن کے نائب صدر قمر زمان اس زوال کا سبب کچھ یوں بیان کرتے ہیں:” اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اب لڑکے محنت نہیں کرتے۔ اس وقت جتنے بھی ٹاپ کھلاڑی ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ وہ ایک ڈیڑھ گھنٹہ سے زیادہ سکواش کھیلتے ہیں۔ ہم اپنے دور میں محنت کرتے تھے،جہانگیر خان یا جان شیر خان کو دیکھ لیں، میں نے خود ٹریننگ کے دوران بھی اور ویسے بھی چار پانچ گھنٹے سے کم سکواش کبھی نہیں کھیلی۔ اب نئی نسل ’شارٹ کٹ‘ کے چکر میں رہتی ہے۔“

لیکن نوجوان کھلاڑی اپنے اوپر عائد اس الزام کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ اس حوالے سے سابق پاکستان نمبر ایک زر جہان خان کھلاڑیوں میں محنت کی کمی کو نہیں بلکہ سہولیات، بالخصوص کوچنگ کے فقدان، کوسکواش کی ابتری کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔

’’لڑکے تو بہت محنت کرتے ہیں لیکن ہمارے ٹریننگ کا نظام درست نہیں، نہ وقت پر ٹریننگ کرائی جاتی ہے اور نہ ہی میچ کرائے جاتے ہیں۔ ایک ہی کوچ کے پاس کئی لڑکے ٹریننگ کر رہے ہوتے ہیں۔ اب ایک کوچ کس کس کو ٹریننگ کرائے گا اور اب کئی لڑکے ایسے ہیں، جن کا نام میں نہیں لینا چاہتا ہوں، کوچز کے ساتھ کھیلنا ہی نہیں چاہتے۔‘‘

البتہ پاکستان کے کھیلوں کے نامور مبصر ذاکر حسین سید کا خیال ہے کہ پاکستان سکواش فیڈریشن کی باگ ڈور اس کھیل سے حقیقی معنوں میں وابستہ افراد کے ہاتھوں میں دینے سے صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔

’’دفاتر میں بیٹھ کر اگر آپ چاہتے ہیں کہ کھلاڑیوں میں ٹیلنٹ پیدا ہوجائے اور آپ کو اچھے کھلاڑی ملیں، تو یہ ممکن نہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ چیف آف ایئر سٹاف بہت مصروف آدمی ہیں، سکواش کےلئے ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جس کے پاس بہت زیادہ وقت بھی ہو اور اس میں لگن بھی ہو۔ اگر پاکستان ایئر فورس اس کھیل کو خاطر خواہ طریقے سے آگے نہیں بڑھا سکتی تو اس کو چاہئے کہ کسی اور کو یہ موقع دے۔‘‘

رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت: گوہر نذیر گیلانی