1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سکیورٹی فورسز نے تشدد کا نشانہ بنایا، روہنگیا مسلم خواتین

عاطف بلوچ، روئٹرز
16 جولائی 2017

روہنگیا مسلم خواتین نے بین الاقوامی میڈیا سے گفتگو میں اپنے اوپر ہونے والے مبینہ ظلم وستم کی داستانیں سنائی ہیں۔ راکھین صوبے میں شروع ہونے والے تشدد کے بعد پہلی مرتبہ غیر ملکی صحافیوں نے وہاں ان خواتین سے ملاقاتیں کیں۔

https://p.dw.com/p/2gcV5
Bangladesch Flüchtlinge der Rohingya
تصویر: picture-alliance/ANN/Greg Constantine/Provided to the Nation

عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق بین الاقوامی صحافیوں کی ایک ٹیم نے میانمار کے صوبے راکھین کا دورہ کیا، جہاں روہنگیا مسلمان کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی مسلم خواتین نے اپنے اوپر بیتنے والی ظلم کی مبینہ کہانیاں سنائیں۔ بتایا گیا ہے کہ ان غیر ملکی صحافیوں کو سکیورٹی حصار میں متاثرہ علاقوں میں لے جایا گیا۔ مسلم روہنگیا خواتین نے ان صحافیوں کو بتایا کہ ان کے کئی رشتہ دار لاپتہ ہو چکے ہیں۔ اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کا الزام ہے کہ میانمار کی سکیورٹی فورسز ان کی املاک کو تباہ کرنے، مردوں کو ہلاک کرنے اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی مرتکب بھی ہوئی ہیں۔

’بودھ دہشت گردی کی علامت‘ کا راکھین کا اشتعال انگیز دورہ

روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و تشدد، سُوچی اور یورپی یونین میں اختلافات

میانمار کا بحران اور روہنگیا کم سِن دلہنیں

ساربیدہ نامی ایک نوجوان ماں نے کہا، ’’میرا بیٹا دہشت گرد نہیں ہے، پھر بھی اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘‘ ایک شیرخوار کو اپنی گود میں لیے اس خاتون کا مزید کہنا تھا کہ جب اس کے چودہ سالہ بیٹے کو گرفتار کیا گیا تو وہ ایک فارم پر کام کر رہا تھا۔ دیگر کئی خواتین نے بھی کہا کہ ان کے شوہروں کو جھوٹے الزامات کے تحت حراست میں لیا جا چکا ہے۔ تاہم میانمار حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔

میانمار کی سکیورٹی فورسز نے گزشتہ برس نومبر میں راکھین کے علاقے ماؤنگ ڈو میں بھی مشتبہ شرپسند عناصر کے خلاف کارروائی شروع کی تھی۔ اسی علاقے میں روہنگیا کمیونٹی کی ایک بڑی تعداد آباد تھی۔ اقوام متحدہ کے مطابق تب سے اب تک کم ازکم 75 ہزار روہنگیا مسلمان اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کی خاطر ہمسایہ ملک بنگلہ دیش فرار ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں نے بنگلہ دیش میں موجود ان روہنگیا مہاجرین سے انٹرویوز کے بعد کہا ہے کہ اس کمیونٹی کی خواتین کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی، تشدد اور املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات مبینہ طور پر انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آ سکتے ہیں۔ تاہم نوبل امن انعام یافتہ میانمار کی جمہوری رہنما آنگ سان سوچی زیادہ تر الزامات کو مسترد کرتی ہیں۔

اس تناظر میں سوچی اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی میانمار کے متاثرہ علاقوں میں آمد کے بھی خلاف ہیں۔ میانمار کی حکومت نے گزشتہ نو ماہ تک آزاد مبصرین اور بین الاقوامی صحافیوں کو بھی متاثرہ علاقوں میں رپورٹنگ کی غرض سے جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔

تاہم اسی ہفتے میانمار کی وزارت اطلاعات نے ایک درجن سے زائد غیر ملکی صحافیوں کو متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کی اجازت دی۔ دو روزہ قیام کے دوران ان صحافیوں کو راکھین کے علاقے ماؤنگ ڈو لے جایا گیا، جہاں انہوں نے متاثرہ افراد سے گفتگو کی۔ روئٹرز نے بتایا ہے کہ جیسے ہی سکیورٹی فورسز سے الگ ہو کر روہنگیا کمیونٹی کے افراد سے بات چیت کی گئی تو انہوں نے فوری طور پر کہا کہ سکیورٹی فورسز انہیں تشدد کا نشانہ بنا رہی ہیں۔

میانمار سے روہنگیا مسلمانوں کی ہجرت کا سلسلہ بدستور جاری