1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیاسی ابلاغ کے نئے طریقے

تنویر شہزاد، لاہور14 نومبر 2008

انٹرنیٹ کی تیزرفتارترقی نے جہاں زندگی کے دوسرے شعبوں کو متاثر کیا ہے وہاں اس نے سیاسی ابلاغ کے طور طریقے بھی بدل ڈالے ہیں۔

https://p.dw.com/p/Fv46
اب نعروں کی آوازیں صرف مال روڈ سے ہی نہیں بلکہ یوٹیوب سے بھی سنائی دیتی ہیں۔تصویر: AP

انتخابی مہم ہو یا پھراحتجاجی سر گرمیاں، سیاسی پیغام رسانی کے لئے پرانے ذرائع ابلاغ کا استعمال متروک ہوتا جا رہا ہے اور بات کہنے کے لئے نت نئے اور جدید طریقے اپنائے جا رہے ہیں۔

سیاسی جماعتیں اپنی پالیسیاں، جلسوں اورجلوسوں کے ذریعے ہی نہیں بلکہ اب اپنی ویب سائٹس کے ذریعے بھی بتا رہی ہیں۔ سیاسی کارکنوں کوفنکشنزکی اطلاع روایتی دعوت ناموں کی بجائے اب ایس۔ ایم ۔ایس کے ذریعے مل رہی ہیں۔ سیاسی امور پربحث ومباحثے موچی دروازے کی بجائے انٹرنیٹ کے چیٹ رومزمیں ہو رہے ہیں۔ اب نعروں کی آوازیں صرف مال روڈ سے ہی نہیں بلکہ یوٹیوب سے بھی سنائی دیتی ہیں۔ پمفلٹس بانٹننے والے سیاسی کارکن اپنی سی ڈیز تقسیم کرتے نظرآتے ہیں۔ دروازہ کھٹکھٹا کر ووٹ مانگنے والے سیاسی رہنماؤں نے اب ای۔ میل کے ذریعے اپنا پیغام عوام تک پہنچانے کا فن بھی سیکھ لیا ہے۔

ماضی کا جاگیردار سیاستدان اپنے سپورٹروں سے بات کرنے کے لئے انہیں اپنے ڈیرے پر اکھٹا کر لیا کرتا تھا جبکہ دور جدید کا سیاستدان اپنے حمایتیوں سے بات کرنے کے لئے فیس بک استعمال کرتا ہے۔ سیاسی ابلاغ کے ان جدید طریقوں کو حالیہ امریکی انتخابات میں بہت کامیابی کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔ نوجوان ووٹروں میں مقبول باراک اوباما فیس بک کے زریعے 10 لاکھ سے زائد سپورٹروں سے مسلسل رابطے میں رہے جبکہ ھیلری کلنٹن اورجان مکین اس معاملے میں ان سے بہت پیچھے تھے۔

سیاسی ابلاغ کے جدید طریقے کم خرچ بھی ہیں اور تیزرفتاربھی لیکن پھر بھی جنوبی ایشیا کی سیاست میں ان کا استعمال ابھی عام نہیں ہوسکا ہے۔ پاکستان اور بھارت تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنی ویب سائٹس تو بنا رکھی ہیں لیکن وہ عوامی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ جنوبی ایشیا کے سیاسی لیڈر فیس بک پر نظرتوآتے ہیں لیکن اگر فیس بک پر ڈاکٹرمن موہن سنگھ، پرویزمشرف، آصف زرداری ، سونیا گاندھی اور الطاف حسین کے دوست ڈھونڈنے نکلیں توان کی تعداد چند سو سے زیادہ نظر نہیں آتی۔

یو ٹیوب کوتوپاکستان میں سیاسی مخالفین کی کردار کشی کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جنرل مشرف کا رقص، خاتون وفاقی وزیرکی تمباکونوشی یا ایک گورنرکی میبنہ طورپرقابل اعتراض تصویریں سب کچھ یہاں موجود ہے۔ صرف یہ ہی نہیں وہ کچھ بھی یہاں پڑا ہے جس کے بیان سے اس نامہ نگار کو توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

پاکستان کے سابق وزیراطلاعات جاوید جبار کہتے ہیں کہ سیاسی ابلاغ کے یہ جدید طریقے ابھی جنوبی ایشیا میں پوری طرح استعمال نہیں کئے جا رہے ہیں تاہم ان کے مطابق سیاسی ابلاغ کا عمل تیزی سے تبدیل ہورہا ہے۔ فلپائن میں چند سال پہلے صدر کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرے کے لئے 24 گھنٹے کے نوٹس پر لاکھوں لوگ اکھٹے کر لیے گئے تھے لیکن پاکستان میں ابھی ایسی صورتحال نہیں ہے۔

یوٹیوب کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال میں ان کا کہنا تھا کہ ابلاغ کے اس زریعے کی وجہ سے اگرچہ آزادی اظہار کو نئی وسعت ملی ہے کوئی بھی شخص بغیر کسی روک ٹوک کے پوری دنیا کو چند لمحوں میں کوئی بھی بات بتا سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ زریعہ لوگوں کو گمراہ کرنے یا بعض با اثر لوگوں کی پرائیویسی متاثر کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

تیزرفتارسائنسی ترقی کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ آنے والے دور میں لوگ حیران ہوکرایک دوسرے کو بتایا کریں کہ ایک زمانہ ایسا بھی ہوا کرتا تھا جب لوگ صرف ریڈیو اورٹی وی کے زریعے ہی معلومات حاصل کیا کرتے تھے اورحکومت تک اپنی آواز پہنچانے کے لئے مظاہرین کو جلسے اور جلوس منعقد کرنا پڑتے تھے۔