1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیاسی کشمکش کے شکار کویت میں انتخابات اختتام کے مراحل میں

رپورٹ: انعام حسن، ادارت:کشور مصطفیٰ16 مئی 2009

کویت میں آج انتخابات کا انعقاد ہوا اور ایوان زیریں کی پچاس نشستوں کے لئے کل ملا کر 210 امیدواروں ان انتخابات میں حصہ لیا جن میں 16 خواتین بھی شامل تھیں۔

https://p.dw.com/p/HrmF
تصویر: AP

کویت کے باشندوں نے ملک میں جاری شدید سیاسی کشمکش کے دوران آج ہفتے کے روز اسی سال ایک مرتبہ پھر اپنا حق رائےدہی استعمال کیا۔ ان انتخابات میں 50 نشستوں پر 210 امیدواروں کے مابین مقابلہ ہوا جن میں 16 خواتین بھی شامل تھیں۔ سن 2005 میں ایک قانون کی بدولت کویتی خواتین انتخابات میں ووٹ ڈالنے اور اس جمہوری عمل میں بطور امیدوار حصہ لینے کی اہل قرار پائی تھیں۔

کویتی انتخابات میں تقریبا تین لاکھ پچاسی ہزار شہری ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں جن میں خواتین کا تناسب 54.3 فیصد ہے۔ کویت میں 34 لاکھ کے قریب آبادی اس حق سے محروم ہے کیونکہ ان کو اب تک کویتی شہریت حاصل نہیں ہے۔

ان انتخابات میں اگر ایک جانب روشن خیال امیدواروں نے حصہ لیا ہے تو دوسری جانب اسلامی رجعت پسند عناصر بھی انتخابات کے اس عمل میں کافی مضبوط نظر آرہے ہیں۔ تاہم خلیج کے خطے میں تیل کی دولت سے مالامال اس ریاست کو گذشتہ دو سال سے ایک ایسے سیاسی بحران کا سامنا ہے جس کی وجہ سے سیاسی ماہرین کو اس ملک میں جمہوریت کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔

کویت کے امیر شیخ صباح الاحمدالصباح نے گذشتہ مارچ میں اس وقت ایوان زیریں کو تحلیل کردیا تھا جب حزب مخالف نے وزیراعظم شیخ نصرالمحمدالصباح پر حکومتی خزانے کے ناجائز استعمال اور معیشت کی زبوں حالی کا سبب بنے والے اقدامات سے لے آئین کی خلاف ورزی کرنے تک کے الزامات لگائے تھے۔

Die Kuwait Towers dienen der Stadt Kuwait
کویت سٹی میں کویت ٹاورز کا منظرتصویر: picture-alliance / dpa

اس سے پہلے بھی ایوان زیریں میں اپوزیشن ممبران سن 2006 سے کویتی امیر سے مسلسل یہ مطالبہ کرتے رہے تھے کہ وزیراعظم کو ان کے منسب سے ہٹایا جائے، جس کے بعد 2007 میں بھی پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا گیا تھا اور پھر جون 2008 میں انتخابات منعقد ہوئے تھے جن میں اسلامی رجعت پسند امیدوار ایک مضبوط طاقت کے طور پر ابھرے تھے۔

کویت میں امیدواروں کا تعلق سیاسی جماعتوں کے بجائے مختلف قبیلوں سے ہوتا ہے اور یہی ان امیدواروں کے حلقے تصور کئے جاتے ہیں کیونکہ کویت میں تمام سیاسی سرگرمیوں اور جماعتوں پر پابندی عائد ہے۔ تاہم کویت خلیجی ریاستوں سے وہ پہلا ملک ہے جہاں 1963 میں پہلی دفعہ مقننہ کے لئے انتخابات منعقد ہوئے تھے اور تب سے اب تک کل 13 دفعہ انتخابات کا انعقاد ہوچکا ہے۔

کویتی عوام کی اگرچہ موجودہ انتخابات سے کچھ خاص توقعات وابستہ نہیں ہیں مگر اس خلیجی ریاست کے انتخابات میں عورتوں کا جوش و خروش قابل ذکر ہے۔ ایک سیاسی تجزیہ نگار کے مطابق اگر اس جمہوری عمل میں کسی ایک خاتون امیدوار کی بھی جیت ہوگئی تو یہ کویت کی سیاسی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ ہوگا۔

اقتصادی ماہرین کے مطابق کویت کی نئی اسمبلی اور کابینہ کا سب سے بڑا امتحان یہ ہوگا کہ وہ کب اور کیسے عالمی معاشی بحران سے نمٹنے کے لئے پانچ بلین ڈالر کے ایک اقتصادی پیکج کے بل کو منظور کرتی ہے۔