1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیالکوٹ: دو بھائیوں کا سرعام قتل، تحقیقات جاری

24 اگست 2010

پاکستانی صوبہء پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں دو نوجوانوں کو کھلے عام تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کرنے کے واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/OuT5
تصویر: picture-alliance/ dpa

گزشتہ ہفتے ایک مقامی چینل پر اس واقعے کی فوٹیج نشر ہونے اور پھر ملکی میڈیا میں اس واقعے پر کھلے عام بحث کے آغاز کے پانچ روز بعد پاکستانی سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے لیا تھا اور ایک تفتیشی کمیٹی قائم کی تھی۔ سپریم کورٹ کے بعد صوبائی انتظامیہ نے بھی واقعے کی تحقیقات کے لئے ایک خصوصی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا، جو اگلے سات روز میں پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔

اس واقعے کے بعد ملک بھر میں ایک نئی بحث نے جنم لے لیا ہے۔ مقامی میڈیا پر نشر ہونے والی رپورٹوں میں نہ صرف اس واقعے میں پولیس کے کردار کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ حکومت اور انتظامیہ پر بھی کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔

Quaid Nawaz Sharif
سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے بعد صوبائی وزیراعلیٰ شہباز شریف اور مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے علاقے کا دورہ بھی کیاتصویر: Tanvir Shahzad

مقامی میڈیا پر نشر ہونے والی فوٹیج میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ مقامی افراد ان دونوں نوجوانوں کو لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے بری طرح پیٹ رہے ہیں جبکہ جائے واقعہ پر موجود متعدد پولیس اہلکار خاموش تماشائی بنے نہ صرف اس تمام کارروائی کو ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں بلکہ ان نوجوانوں پر تشدد کرنے والے افراد کی حوصلہ افزائی میں بھی مصروف ہیں۔

ان دونوں نوجوانوں کو بہیمانہ تشدد کے ذریعے ہلاک کرنے کے بعد ان کی مسخ شدہ لاشوں کو مقامی ریسکیو سینٹر کی عمارت کے باہر کافی دیر تک الٹا لٹکا کر بھی ان پر ڈنڈے برسائے گئے جبکہ بعد ازاں ان لاشوں کو ایک ٹرالی میں ڈال کر شہر بھر میں گھمایا گیا اور پھر شہر کے ایک دوسرے کونے پر قائم مردہ خانے کے باہر کیچڑ میں پھینک دیا گیا۔ لاشوں کو شہر میں گھمانے والے ٹریکٹر اور ٹرالی کے ساتھ ساتھ پولیس کی ویگن بھی موجود رہی، جو اس ٹرالی کے لئے راستہ صاف کرواتی رہی۔

اس تمام واقعے کو متعدد افراد نے نہ صرف اپنے موبائل کیمروں کے ذریعے فلم بند کیا بلکہ ایک مقامی ٹی وی چینل کے ایک رپورٹر نے اس واقعے کی مکمل فلم بندی کی۔ صوبائی حکومت کے ترجمان پرویز رشید نے فرانسیسی خبررساں ادارے AFP سے اپنی بات چیت میں کہا کہ حکام کو اس واقعے کا علم ٹی وی چینلز پر نشر کئے جانے والے مناظر کے بعد ہوا تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ مقامی میڈیا پر کوئی ایک ہفتہ تک ان واقعات کے بار بار نشر ہونے اور سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے سے قبل صوبائی یا وفاقی حکومت کی نگاہ ان مناظر پر کیوں نہیں پڑی۔

Lahore Pakistan Anschlag Krankenhaus
اس واقعے کے بعد متعدد افراد کو گرفتاری کیا گیا ہےتصویر: AP

پرویزرشید کے مطابق رواں ماہ کی 15 تاریخ کو ان نوجوانوں کا جھگڑا قریبی گاؤں کے دوسرے نوجوانوں سے کرکٹ کے میدان پر ہوا اور ایسے میں وہاں موجود لوگوں میں سے کسی نے ان دونوں نوجوانوں پر ڈاکو ہونے کا الزام عائد کر دیا۔ اس واقعے سے چند روز قبل اس علاقے میں ہونے والی ایک ڈکیتی کی واردات میں فائرنگ کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک جبکہ دو زخمی ہو گئے تھے۔ ان نوجوانوں پر ڈاکو ہونے کے الزام کے بعد مقامی افراد نے ان نوجوانوں پر تشدد شروع کر دیا۔

پرویز رشید کے مطابق صوبائی حکومت نے اس واقعے کی تفتیشی رپورٹ اگلے سات روز کے اندر طلب کر لی ہے۔ اُدھر سپریم کورٹ نے اس واقعے کی علیٰحدہ تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔

پرویز رشید نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو ہر حال میں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور انہیں انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت سزا دلوائی جائے گی۔

صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس مجمع میں شامل تمام ایسے افراد کو قاتل تصور کیا جائے گا، جن کی نشاندہی ہو جائے گی۔

رپورٹ: عاطف توقیر

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں