1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سیاہ ماضی‘ کو بھولنا ہو گا، سرب وزیر اعظم ووچچ

عاطف بلوچ24 اپریل 2016

عام انتخابات کے موقع پر سرب وزیر اعظم ووچچ نے ووٹروں پر زور دیا ہے کہ انہیں ملک کی ’سیاہ تاریخ‘ کو بھول کر یورپی یونین کا حصہ بننے کی کوشش کرنا چاہیے۔ بلقان کی اس ریاست میں اتوار کے دن پارلیمانی انتخابات ہو رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Ibcm
Serbien Wahlkampf Partei SNS Aleksandar Vucic
عوامی جائزوں کے مطابق وزیر اعظم الیگزینڈر ووچچ کی قدامت پسند پارٹی تیسری مرتبہ بھی حکومت سازی میں کامیاب ہو سکتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/K. Sulejmanovic

سربیا میں آج چوبیس اپریل بروز اتوار عام انتخابات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ عوامی جائزوں کے مطابق وزیر اعظم الیگزینڈر ووچچ کی قدامت پسند پارٹی تیسری مرتبہ بھی حکومت سازی میں کامیاب ہو سکتی ہے۔

اندازہ ہے کہ یہ جماعت کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے نصف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس الیکشن کے ابتدائی نتائج آج رات گئے تک متوقع ہیں۔

انتخابات سے قبل کرائے گئے عوامی جائزوں کے مطابق الٹرا نیشنلسٹ اتحاد بھی ان انتخابات میں پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔

یہ اتحاد بلقان کی اس ریاست کے روس کے ساتھ زیادہ قریبی تعلقات پر زور دیتا ہے۔ اس اتحاد کے ماسکو نواز سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ سربیا کو یورپی یونین سے دور ہی رہنا چاہیے۔

ووچچ کی ’پروگریسو پارٹی‘ نے سن 2012 اور 2014 میں بھی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ تاہم ووچچ نے ایک مرتبہ پھر ملک میں قبل از وقت عام انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے حال ہی میں کہا تھا کہ یورپی یونین میں شمولیت کے لیے جاری مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے انہیں پورے چار برس کا پارلیمانی عرصہ درکار ہو گا۔

ووچچ نے اپنی انتخابی مہم کے آخری دن بلغراد میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’یہ الیکشن سربیا کے مستقبل کے لیے انتہائی اہم ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ عوام کو ماضی کے ’سیاہ دنوں‘ سے چھٹکارا حاصل کرتے ہوئے خوشحالی اور ترقی کو یقینی بنانے کی کوشش کرنا چاہیے۔

وزیر اعظم ووچچ کی کوشش ہے کہ وہ سات ملین کی آبادی والے اپنے ملک کو یورپی یونین کا حصہ بنا دیں۔ چھیالیس سالہ ووچچ نے کہا ہے کہ وہ عوام سے واضح مینڈیٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس لیے انہوں نے قبل ازوقت انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سربیا میں گزشتہ چار برسوں کے دوران یہ تیسرے انتخابات ہیں۔

دوسری طرف کچھ مبصرین کے بقول ووچچ دراصل اقتدار پر اپنا قبضہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ووچچ کے مطلق العنان رحجانات پر تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔ ووچچ کے ناقدین ان کے اقتدار میں میڈیا پر لگائی جانے والی پابندیوں پر تنقید بھی کرتے ہیں۔

سربیا نے گزشتہ برس دسمبر میں یورپی یونین کی رکن ریاست بننے کی خاطر کوششوں کا آغاز کیا تھا۔ اگرچہ یورپی یونین نے واضح کر رکھا ہے کہ سن 2020 تک مزید کسی ملک کو یونین کا رکن نہیں بنایا جائے گا لیکن بلغراد کی کوشش ہے کہ مقررہ وقت تک اصلاحاتی عمل مکمل کر کے یونین میں شمولیت کی بنیادی شرائط کو پورا کر دیا جائے۔

Vojislav Seselj in Belgrad Kriegsverbrechertribunal
سربیا کی ریڈیکل پارٹی کے الٹرا نیشنلسٹ رہنما Vojislav Seselj روس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے خواہاں ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/K. Sulejmanovic

سربیا کی ریڈیکل پارٹی کے الٹرا نیشنلسٹ رہنما Vojislav Seselj نے اپنی آخری انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’اگر سربیا روس کے ساتھ تعلقات بڑھاتا ہے تو ہی وہ محفوظ رہے گا، کیونکہ روس نے ہمیشہ ہماری مدد کی ہے نا کہ بمباری۔‘‘ ان کا اشارہ 1999ء میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی طرف سے کوسووو کی جنگ کے دوران سربیا پر کی جانے والی بمباری کی طرف تھا، ’’سربیا یورپ سے کچھ بھلائی کی توقع نہیں کر سکتا۔‘‘

عوامی جائزوں کے مطابق بہرحال یہ طے ہے کہ ریڈیکل پارٹی کے نظریات کی وجہ سے ان انتخابات میں اس کا کامیاب ہونا ممکن نہیں ہے اور نہ ہی یہ امکان زیادہ ہے کہ ملکی حالات کی وجہ سے ووٹر اس پارٹی کو زیادہ ووٹ دیں گے۔

یہ امر اہم ہے کہ سربیا میں غربت، بے روزگاری، پست معیار زندگی اور اس پر یورپی یونین کے اصلاحات کے مطالبات عوام کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔