1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سید مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ سندھ منتخب

رفعت سعید، کراچی29 جولائی 2016

سید مراد علی شاہ نے سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھا لیا ہے۔ سندھ اسمبلی نے مراد علی شاہ کو سادہ اکثریت سے قائد ایوان منتخب کیا جبکہ انتخاب میں مجموعی طور پر اکیانوے اراکین نے حصہ لیا۔

https://p.dw.com/p/1JYdJ
Murad Ali Shah
تصویر: DW/R.Saeed

مراد علی شاہ کو وزارت اعلیٰ کے لئے اٹھاسی اور ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے خرم شیر زمان کو صرف تین ووٹ ملے۔ نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب غیر روایتی انداز میں ڈویژنل پول کے ذریعے ہوا جبکہ ماضی میں وزرا اعلیٰ کا انتخاب خفیہ رائے شماری یا پھر ہاتھ اٹھا کر کیا جاتا تھا۔

مراد علی شاہ پہلی مرتبہ دو ہزار دو میں اپنے آبائی حلقہ سہیون سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔ پاکستانی سیاست میں عملی کردار ادا کرنے کی خاطر انہوں نے دو ہزار تیرہ میں برطانیہ کی شہریت کو بھی خیر باد کہا۔ مراد علی شاہ قیام پاکستان کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ بننے والے ستائیسویں شخصیت ہیں۔ ان کے والد سید عبداللہ شاہ بھی اس منصب پر فائز رہے ہیں۔

مراد علی شاہ نے بطور قائد ایوان پہلے خطاب میں اس اہم منصب پر فائز کئے جانے پر پارٹی قیادت کے ساتھ ساتھ تمام جماعتوں کے قائدین خصوصاﹰ متحدہ کے قائد الطاف حسین کا نام لے کر شکریہ ادا کیا۔

نئے وزیر اعلیٰ نے قائم علی شاہ کے دور حکومت میں امن و امان کی صورت حال کو مثالی قرار دیتے ہوئے اپنے آپ کو خوش نصیب گردانا کہ انہیں امن و امان کی اتنی اچھی صورت حال ملی ہے۔ انہوں امن و امان کی صورت حال کو مزید بہتر بنانے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔

Murad Ali Shah
تصویر: DW/R.Saeed

سندھ اسمبلی ایک سو اڑسٹھ اراکین پر مشتمل ہے، سادہ اکثریت سے قائد ایوان کے انتخاب کے لئے چھیاسی اراکین کی حمایت درکار ہوتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے اراکین کی تعداد اکیانوے ہے تاہم اویس مظفر عرف ٹپی اور شرجیل انعام میمن سمیت چار اراکین بیرون ملک ہونے کی وجہ سے ووٹ نہ دے سکے۔

سندھ کی دوسری بڑی جماعت ایم کیو ایم نے آپریشن میں مبینیہ طور پر نشانہ بنائے جانے کے باعث بطور احتجاج اپنے اراکین کو انتخابی عمل سے علیحدہ رکھا البتہ اسیر رکن عبدالروف صدیقی کو اسپیکر کی ہدایت پر جیل سے اسمبلی لایا گیا تھا۔ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے اراکین کی تعداد اکیاون ہے، جن میں سے دو بیرون ملک ہیں، دو مصطفٰی کمال کی پارٹی میں شامل ہونے کے بعد مستعفی ہوچکے ہیں جبکہ ایک رکن روپوش ہے۔

قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن نے ڈوچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پییپلز پارٹی نے نہ تو حمایت کے لئے رابطہ کیا اور نہ ہی ایم کیو ایم صرف چہروں کی تبدیلی پر یقین رکھتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کے لئے بھی باقی ماندہ بائیس ماہ آسان نہیں ہوں گے، ’’روف صدیقی پارٹی قیادت کی اجازت سے اسمبلی میں آئے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم نے مراد علی شاہ کے سامنے امیدوار کھڑا نہیں کیا البتہ انہیں سندھ کے شہری علاقوں سے منتخب نمائندوں کے ووٹ نہیں ملے، ’’ہماری دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ مراد علی شاہ کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ سندھ کے شہروں کے بھی وزیر اعلیٰ ہیں۔‘‘

فنکشنل لیگ کے اراکین بھی ایوان سے غیر حاضر رہے۔ مسلم لیگ نواز میں ضم ہونے والے نیشنل پیپلز پارٹی کے چار جتوئی برادران نے بھی مراد علی شاہ کو ووٹ دیا جبکہ منحرف رہنما ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے بیٹے حسنین مرزا نے بھی مراد علی شاہ کی حمایت کی اور میڈیا کو بتایا کہ وہ اپنا جمہوری فریضہ ادا کرنے اسمبلی میں آئے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق بطور وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کا پہلا امتحان کابینہ کی تشکیل ہے اگر انہیں پارٹی قیادت کے دباؤ سے زیادہ حمایت حاصل رہی تو یہ کام قدرے آسان ہوگا لیکن اگر صورت حال اس کے الٹ ہوئی تو مشکلات کا آغاز ابتدا سے ہی ہو جائے گا۔