1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سینکڑوں تارکینِ وطن کا ہنگری کی جانب پیدل احتجاجی مارچ ختم

صائمہ حیدر
5 اکتوبر 2016

ایسے سینکڑوں تارکینِ وطن، جنہوں نے یورپی یونین کے ممالک کی سرحدوں کی بندش کے خلاف ہنگری طرف پیدل احتجاجی مارچ شروع کیا تھا، اپنا احتجاج ختم کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2QtWg
Ungarn Flüchtlinge an der Grenze zu Serbien
سربیا کے حکام کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ افراد کو سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے لیے قائم مراکز لے جایا جائے گاتصویر: picture alliance/dpa/S. Ujvari
Ungarn Flüchtlinge an der Grenze zu Serbien
سربیا کے حکام کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ افراد کو سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے لیے قائم مراکز لے جایا جائے گاتصویر: picture alliance/dpa/S. Ujvari

یہ مہاجرین کھلے آسمان کے نیچے ایک رات گزارنے کے بعد سربیا کے دارالحکومت بلغراد واپس جانے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ یہ تارکینِ وطن بلغراد کے شمال سے چالیس کلو میٹر دور ایک چھوٹے قصبے میں دو بسوں پر سوار ہوئے۔ جہاں انہوں نے ایک مقامی گیس اسٹیشن پر رات بھر قیام کیا تھا۔ سربیا کے حکام کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ افراد کو سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے لیے قائم مراکز لے جایا جائے گا۔ منگل کے روز ابتدائی طور پر سینکڑوں تارکینِ وطن نے بلغراد سے یورپی رکن ملک ہنگری کی سمت احتجاجی مارچ کا آغاز کیا تھا۔

اُن کا مطالبہ تھا کہ جنگ اور غربت سے متاثر افراد کے لیے سرحدوں کی بندش ختم کی جائے۔ رواں برس موسمِ گرما سے ہنگری کے پناہ گزینوں کے لیے سرحدوں کی سخت بندش کے بعد سے قریب  چھ ہزار سے زائد تارکین وطن سربیا میں پھنسے ہوئے ہیں۔

Asylbewerber in Bulgarien
رواں برس موسمِ گرما سے ہنگری کے پناہ گزینوں کے لیے سرحدوں کی سخت بندش کے بعد سے قریب  چھ ہزار سے زائد تارکین وطن سربیا میں پھنسے ہوئے ہیںتصویر: DW/E.Barbiroglio

 اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے اعدادوشمار کے مطابق ہنگری کے ساتھ متصل سربیا کی سرحد پر کم ازکم اٹھائیس سو مہاجرین نے عارضی کیمپ لگا رکھے ہیں۔ سربیا کے حکام کے مطابق رواں برس کے دوران ملک میں ایک لاکھ دو ہزار سے زائد تارکین وطن رجسٹریشن کرا چکے ہیں۔

یورپی یونین نے غیر قانونی مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کو روکنے کی خاطر سخت قوانین متعارف کرا دیے ہیں۔ تاہم سربیا میں موجود پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ وہ بہتر زندگی کی خاطر شروع کیے جانے والا سفر ترک نہیں کریں گے۔ انہیں اب بھی امید ہے کہ وہ ہنگری میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے۔