1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیکریٹری جنرل نیٹو یاپ ڈی ہاپ شیفر کا دورہ پاکستان

امتیاز گل ، اسلام آباد22 جنوری 2009

امریکی جنرل ڈیوڈ پیٹر یاس کے دورہ پاکستان کے دو روز بعد نیٹوکے سیکرٹری جنرل یاپ ڈی ہاپ شیفر کی اسلام آباد آمد اس تشویش کا اظہار ہے جو قبائلی علاقوں اور سوات کی صورت حال کے باعث پاکستان اور اتحادی افواج کو لاحق ہے۔

https://p.dw.com/p/GeML
نیٹوکے جنرل سیکریٹری یاپ ڈی ہاپ شیفرتصویر: AP

جمعرات کو اسلام آباد میں صدراورفوج کے سربراہ کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں نیٹو سیکرٹری جنرل نے زور دیا کہ پاکستان اور نیٹو کو مل کر افغانستان میں استحکام کےلئے کوششیں تیز کرنی ہوں گی اور یہ کہ اس سلسلے میں نیٹو سمیت تمام ممالک کو ’Do More‘ کی پالیسی پر عمل کرنا ہو گا۔ نیٹو کے سیکرٹری کے جنرل نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی فوج کو بھاری قیمت چکانا پڑی ہے اور اس ضمن میں پاکستان کا اہم کردار ہے۔ تاہم بقول ان کے پاکستان کو سرحد کے اس پار سے افغانستان میں حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے خلاف مزید سخت کارروائی کرنی ہو گی۔ شیفر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن و امان کی صورت حال میں بہتری کے بعد ہی تعمیر وترقی اور اقتصادی بہتری کی منزل حاصل ہو سکتی ہے۔’’ صرف فوج کی تعداد میں اضافہ ہی کافی نہیں اس کے لیے تعمیر نو اور ترقی ضروری ہے اوراس سلسلے میں امن ا ور سلامتی درکار ہے اور اسی کے لیے فوج کاکرداربنتا ہے۔‘‘

اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انہوں نے نیٹو کے سیکرٹری جنرل کو ممبئی حملوں کے بعد کی صورت حال سے بھی آگاہ کیا اور یہ کہ پاک بھارت کشیدگی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مددگار ثابت نہیں ہو سکتی۔ وزیرخارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ کشیدگی کے باوجود پاکستان مغربی سرحد پر اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے ان کے بقول نیٹو کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ قبائلی علاقوں کے ترقیاتی امور بھی زیر بحث آئے ۔

دریں اثناء جمعرات ہی کے روز سوات اور قبائلی علاقوں کی صورت حال پر غور کے لئے ایوان صدر میں اعلیٰ سطحی ہنگامی اجلاس بھی منعقد ہوا۔ ایوان صدر کے ذرائع کے مطابق صدر آصف زرداری نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں طاقت کو آخری آپشن کے طور پر استعمال کیا جائے ا ور ہتھیار پھینکنے والے شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے امن کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔