1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شارلی ايبدو پر حملے کو تين سال بيت گئے

عاصم سلیم
7 جنوری 2018

فرانس ميں طنزيہ جريدے شارلی ايبدو کے دفتر پر انتہا پسندوں کے حملے کو تين برس بيت گئے ہيں۔ اس موقع پر ملکی صدر امانویل ماکروں نے ہلاک ہونے والے افراد کو ايک خصوصی دعائيہ تقريب ميں خراج عقيدت پيش کيا۔

https://p.dw.com/p/2qSkV
Frankreich Paris - Emannuel Macron bei der Gedenkfeier der Opfer von Charlie Hebdo
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Ena

فرانسيسی دارالحکومت پيرس ميں شارلی ايبدو کے سابق دفتر پر اتوار سات جنوری کو ايک خصوصی تقريب منعقد ہوئی۔ اس دعائيہ تقريب ميں جريدے کے کئی صحافيوں سميت حکومتی اہلکاروں، پيرس کی ميئر اين ہڈالگو اور صدر امانویل ماکروں نے شرکت کی۔ لواحقين کی درخواست پر تقريب کافی چھوٹے پيمانے پر رکھی گئی تھی۔

دہشت گرد نيٹ ورک القاعدہ سے وابستہ دو دہشت گردوں نے سات جنوری سن 2015 کو شارلی ايبدو کے دفتر پر حملہ کر کے گيارہ افراد کو ہلاک کر ديا تھا۔ دہشت گردوں نے يہ کارروائی اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے ميں جريدے کی جانب سے طنزيہ اشاعت کے رد عمل ميں کی تھی۔ اس واقعے نے فرانسيسی معاشرے کو ہلا کر رکھ ديا تھا۔ علاوہ ازيں خبر رساں ادارے اے ايف پی کے ايک جائزے کے مطابق اس کارروائی کے بعد فرانس ميں جہاديوں کے حملوں کا ايک باقاعدہ سلسلہ شروع ہو گيا تھا، جس ميں مجموعی طور پر 241 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

اس حملے کے بارے ميں شارلی ايبدو کے ايک لکھاری فيبريس نکولينو نے گزشتہ ہفتے ايک کالم ميں لکھا، ’’سات جنوری سن 2015 کی تاريخ نے ہميں مسلح پوليس، اہم مقامات کے داخلی راستوں پر سکيورٹی اور اضافی سکيورٹی والے دروازوں کی خوف اور موت سے بھرپور ايک نئی دنيا ميں دھکيل ديا۔‘‘

شارلی ايبدو کی انتظاميہ اس وقت ايک تا ڈيڑہ ملين يورو سالانہ صرف اپنے عملے اور دفتر کی سکيورٹی پر خرچ کرتی ہے۔ سلامتی سے متعلق خدشات کے سبب ميگزين کا دفتر بھی کسی خفيہ مقام پر قائم ہے۔ جريدے سے منسلک صحافیوں اور ايڈيٹرز کو آج بھی دھمکياں موصول ہوتی رہتی ہيں۔

پچھلے سال نومبر ميں شارلی ايبدو ايک مرتبہ پھر تنازعے کی نظر اس وقت رہا، جب جريدے کے فرنٹ پيچ پر مسلمان اسکالر طارق رمضان کے حوالے سے ايک متنازعہ کارٹون چھپا۔ سوئٹزرلينڈ سے تعلق رکھنے والے رمضان کو فرانسيسی مسلمانوں ميں کافی مقبوليت حاصل ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ شارلی ايبدو ميں نہ صرف مسلمان بلکہ مسيحی اور يہودی مذہب کے ماننے والوں کے خلاف بھی طنزيہ نوعيت کا مواد شائع ہوتا رہتا ہے۔

’میرے شارلی ایبدو کا وجود ختم ہو گیا ہے‘