1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شاعر سے جنگی مجرم تک

عدنان اسحاق24 مارچ 2016

جنگی جرائم کی بین االاقوامی عدالت نے سابق سرب رہنما راڈوون کراڈچچ کو نسل کشی کا مجرم قرار دے دیا ہے۔ عدالت نے 1995ء میں سربرینتسا میں آٹھ ہزار مسلمانوں کے قتل کے جرم میں کراڈچچ کو چالیس سال قید کی سزا سنائی ہے۔

https://p.dw.com/p/1IJ5A
تصویر: picture-alliance/dpa

جنگی جرائم کی بین االاقوامی عدالت کے مطابق کراڈچچ انفرادی طور پر قتل، ایذا رسانی اور اقوام متحدہ کے امن دستوں کو محصور بنانے جیسے واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ستر سالہ کراڈچچ پر جنگی جرائم اور انسانیت سوز مظالم کے کل گیارہ مقدمات قائم ہیں اور ان میں سے نو میں عدالت نے انہیں قصوروار قرار دیا۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ کراڈچچ اس فیصلے کے خلاف اپیل ضرور کریں گے۔

راڈووان کراڈچچ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ ماہر نفسیات، شاعر، سیاست دان اور بوسنیا کے بہت سے شہریوں کے لیے نفسیاتی مسائل کا شکار ایک جنگی مجرم بھی ہے۔ کراڈچچ پر 1990ء کے دہائی میں چار سالہ بوسنیائی جنگ کے دوران جنگی جرائم کے ارتکاب کے شدید ترین الزامات عائد کیے گئے تھے۔ ان کے خلاف مقدمے میں یہ بھی درج ہے کہ مشرقی بوسنیائی شہرسربرینتسا میں آٹھ ہزار مسلمان مردوں اور نوجوانوں کے قتل عام میں بھی انہوں نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

Mann blickt Fahndungsplakate Radovan Karadzic und General Ratko Mladic in Sarajevo
تصویر: picture-alliance/dpa

بلقان ممالک کے امور کے ماہر فرانس لوتھر آلٹمان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’وہاں عام شہریوں پر فائرنگ کی گئی اور ان پر بم برسائے گئے۔ یہ واضح طور پر جنگی جرائم ہیں۔‘‘ کراڈچچ 1945ء میں مونٹی نیگرو کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے اور جب وہ پندرہ برس کے ہوئے، تو وہ سابق یوگوسلاویہ کے شہر ساراژیوو میں جا بسے تھے۔ انہوں نے ایم بی بی ایس مکمل کیا اور پھر ایک برس تک نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں زیر تعلیم بھی رہے۔ اس کے بعد واپس آ کر ساراژیوو کے قریب ’پالے‘ نامی علاقے میں انہوں نے نفسیاتی امراض کی ایک علاج گاہ کھول لی تھی۔ پالے کی زیادہ تر آبادی سرب نسل کے باشندوں پر مشتمل تھی۔

وہ اپنے شاعرانہ مزاج کی وجہ سے بھی مشہور تھے اور ادیبوں کی ایک تنظیم کا بھی حصہ تھے۔ فرانس لوتھر آلٹمان کے مطابق، ’’اس طرح کی خوبیوں کے مالک کسی شخص کا سیاست میں آنا اور قوم پرستی کی حمایت کرنا بذات خود ایک اچنبے کی بات ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ کراڈچچ کی شاعری میں ہی ان کے قوم پرستانہ رجحانات کافی حد تک واضح تھے۔ اس دوران کراڈچچ کی ملاقات ایک قوم پرست ادیب دوبریکا کوشچ سے ہوئی، جن سے وہ بے حد متاثر ہوئے تھے۔ اس کے بعد ان میں قوم پرستی کی جڑیں مزید مضبوط ہو گئیں۔

راڈووان کراڈچچ تنہا ہی قوم پرستی کا پرچار کرنے والے نہیں تھے۔ کراڈچچ نے بطور سیاستدان مسلمانوں کو ’دشمن‘ کے طور پر پیش کرنے کوشش کی۔ آلٹمان کے بقول، ’’اس سوچ کا تعلق سلطنت عثمانیہ کے دور سے تھا۔ وہ مسلم اور بوسنیا کی مسلم آبادی کو عثمانیہ دور کا تسلسل ہی سمجھتے تھے۔ سربیا اور سرب باشندوں نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف شدید مزاحمت کی تھی۔‘‘

Montenegro Petnjica das Heimatdorf von Radovan Karadzic
کراڈچچ 1945ء میں مونٹی نیگرو کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھےتصویر: DW/A. Bogavac

بوسنیا اور کروشیا نے یکم مارچ 1992ء کو ایک ریفرنڈم کے ذریعے بوسنیا ہیرسے گووینا کی خود مختاری کے حق میں فیصلہ کیا۔ سربیا نے اس ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا تھا اور اس کے ایک ہفتے بعد جنگ چھڑ گئی تھی۔ بوسنی سرب علاقوں میں سرب ریپبلک قائم کرنے کا اعلان کر دیا گیا تھا، جسے بعد میں ’جمہوریہ سرپسکا‘ کا نام دیا گیا۔ راڈوون کراڈچچ اس کے پہلے صدر بنے تھے۔ اس کے بعد کے سالوں میں ایک لاکھ افراد ہلاک ہوئے، منظم انداز میں خواتین کی آبروریزی کی گئی اور لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ اسی دوران سربرینتسا میں آٹھ ہزار مسلمانوں کا قتل عام بھی ہوا اور دی ہیگ کی اسی عالمی عدالت نے اس کی ذمہ داری بوسنی سرب افواج کے اس دور کے سربراہ جنرل راٹکو ملاڈچ پر عائد کی۔

جنگ کے بعد ملاڈچ اور کراڈچچ ایک طویل عرصے تک سربیا میں مفرور رہے۔ کراڈچچ نےاپنی شناخت بھی بدل ڈالی اور وہ ڈاکٹر ڈراگن دابچ کہلانے لگے۔ اس دوران ان کے حامیوں نے ان کی بہت مدد کی اور گرفتاری سے قبل ہی انہیں مطلع کرتے رہے۔ تاہم یورپی یونین کے سخت دباؤ کے بعد جنگ کے خاتمے کے بارہ سال بعد یعنی 2008ء میں راڈووان کراڈچچ کو بلغراد سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس کے تین سال بعد راٹکو ملاڈچ بھی شمالی سربیا سے گرفتار کر لیے گئے تھے۔