1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی’’مانیٹرز‘‘ کا زندگیاں بچانے والا خفیہ نیٹ ورک

عدنان اسحاق21 جنوری 2016

’دی مانیٹرز‘ شام کے مختلف فوجی علاقوں کے قریب موجود ہوتے ہیں۔ یہ ایک غیر منظم گروپ ہے، جو عام شہریوں اور باغیوں کو ایک منفرد انداز میں تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ یہ لوگ کیسے کام کرتے ہیں؟

https://p.dw.com/p/1HhXz
تصویر: Reuters/K. Ashawi

شامی ساحلی صوبے الاذقیہ کے باسی ابو محمد نے موبائل ٹیلیفون کے ذریعے اپنے خفیہ نیٹ ورک کے ساتھیوں کو ایک پیغام بھیجا کہ روسی طیارے ہوائی اڈے سے پرواز کر گئے ہیں۔ اس رابطے کے فوراً بعد باغیوں نے اپنے زیر قبضہ شمال مغربی شام کے مختلف علاقوں میں سائرن بجانے شروع کر دیے تاکہ عام شہری فضائی حملوں سے بچنے کے لیے محفوظ مقامات میں جا کر چھپ جائیں۔ ابو محمد اور ان کے ساتھیوں کے مابین پیغام رسانی واٹس ایپ کے ذریعے ہوتی ہے۔

یہ گروپ ’’دی مانیٹرز‘‘ کہلاتا ہے اور اس میں عام شہریوں اور باغیوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ یہ افراد زیادہ تر ان علاقوں میں موجود ہوتے ہیں، جہاں پر فوجی چھاؤنیاں قائم ہیں یا فوجی ہوائی اڈے ہیں۔ دی مانیٹرز سرگرم افراد، ڈاکٹرز اور باغیوں کو ممکنہ فضائی حملے سے خبردار کرتے ہیں۔

ابو محمد (نام تبدیل) نے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے کہا:’’مجھے جنگی طیاروں کی پرواز کا علم ہوتا ہے اور جیسے ہی یہ طیارے فضا میں بلند ہوتے ہیں تو میں اپنے ساتھیوں کو مطلع کر دیتا ہوں۔ میرا پیغام ملتے ہی یا تو یہ محفوظ پناہ گاہوں میں چلے جاتے ہیں یا پھر خندقوں میں چھپ جاتے ہیں۔‘‘ وہ الاذقیہ میں شامی فوج کی چھاؤنی کے پاس موجود رہتا ہے اور اس دوران اسے روسی ڈرون طیاروں اور شامی فوج کی نگرانی سے بار بار بچنا پڑتا ہے۔ اس کے بقول اسے روس کی جانب سے تیس ستمبر سے شروع کی جانے والی فضائی کارروائیوں کے بعد مزید مشکل ہو رہی ہے۔

جنگ نہ رکی تو مہاجرت جاری رہے گی

اسی طرح دی مانیٹرز کے ایک اور رکن ابو عمرو نے بتایا کہ ان کے اس گروپ کا کسی بھی باغی تنظیم سے کوئی واسطہ نہیں ہے:’’اس پیش رفت کا مقصد عام شہریوں اور باغیوں کو جنگی طیاروں سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔ میرے خیال میں یہ مانیٹرز بہت ضروری ہیں۔‘‘ ابو عمرو نے اپنے ان خیالا ت کا اظہار اے ایف پی سے واٹس ایپس کے ذریعے باتیں کرتے ہوئے کیا۔

یہ مانیٹرز ایک زنجیر کی طرح کام کرتے ہیں۔ روسی طیاروں کے اڑتے ہی ایک مانیٹر اپنے دوسرے ساتھی کو طیاروں کی سمت کے بارے میں آگاہ کر دیتا ہے۔ پھر ممکنہ طور پر فضائی کارروائی کا نشانہ بننے والے علاقے میں موجود عام شہریوں اور باغیوں کو خبر کر دی جاتی ہے۔

مختلف علاقوں میں کام کرنے والے سرگرم افراد کے خیال میں مانیٹرز کی موجودگی انتہائی اہم اور لازمی ہے۔ صوبہ حمص میں سرگرم کارکن حسن ابو نوح کہتے ہیں کہ روسی طیاروں کی جانب سے بمباری شروع کرنے سے قبل ہی مختلف تنظیموں نے اس بارے میں سوچنا شروع کر دیا تھا کہ کس طرح فضائی حملوں سے بچا جائے:’’کئی مختلف طریقے آزمانے کے بعد واکی ٹاکی آزمانے کا فیصلہ کیا گیا‘‘۔