1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی امن مذاکرات میں تاخیر ہو سکتی ہے، کیری

افسر اعوان21 جنوری 2016

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ آئندہ ہفتے شروع ہونے والے شامی امن مذاکرات میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ کیری کے مطابق ایک یا دو روز کی یہ تاخیر ’لاجیسٹیکل وجوہات‘ کے باعث ہو سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1HhxU
تصویر: Reuters/L. Foeger

تاہم جان کیری نے امید ظاہر کی ہے کہ مذاکرات کا عمل تقریباﹰ اپنے وقت پر شروع ہو سکے گا۔ کیری کے مطابق مذاکرات میں اس التواء کی وجہ دراصل شرکاء کو بروقت دعوت نامے موصول نہ ہونا ہے۔ قبل ازیں امریکی وزیر خارجہ نے شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسٹیفان ڈے مِستورا سے ملاقات کی۔ اسٹیفان ڈے مِستورا ہی شامی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان امن مذاکرات کا اہتمام کر رہے ہیں۔ یورپی ملک سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں ان مذاکرات کے لیے پیر 26 جنوری کی تاریخ طے ہوئی تھی۔

سوئٹزلینڈ کے شہر داووس میں جاری ورلڈ اکنامک فورم کے دوران اسرائیلی وزیراعظم بنینجمن نیتن یاہو سے ملاقات سے قبل جان کیری کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’جب آپ کہتے ہیں تاخیر تو یہ ایک یا دو دن کی ہو سکتی ہے جو دعوت نامے نہ ملنے کے باعث ہو سکتی ہے لیکن یہ کوئی بڑی تاخیر نہیں ہے۔‘‘ کیری کا مزید کہنا تھا، ’’اس عمل کا آغاز 25 تاریخ سے ہو جائے گا اور فریقین مل بیٹھ کر دیکھیں گے کہ ہم کہاں تک پہنچے ہیں۔‘‘

خبر رساں ادارے ایسوی ایٹد پریس کے مطابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بدھ 20 جنوری کو زیورخ میں اپنے روسی ہم منصب سیرگئی لاوروف سے ملاقات کی تھی جس کا مقصد یہ معاملہ طے کرنا تھا کہ شامی اپوزیشن کا کون سا گروپ اس بات کا اہل ہو گا کہ وہ ان مذاکرات میں شریک ہو۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ مذاکرات میں تاخیر کا خطرہ بننے والے اس مسئلے کے حل میں کوئی پیش رفت ہوئی ہے یا نہیں۔

قبل ازیں امریکی وزیر خارجہ نے شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسٹیفان ڈے مِستورا سے ملاقات کی
قبل ازیں امریکی وزیر خارجہ نے شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسٹیفان ڈے مِستورا سے ملاقات کیتصویر: picture-alliance/AA

میٹنگ کے بعد لاوروف نے کہا کہ امریکا اور روس نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ مذاکرات کو آئندہ ماہ تک مؤخر نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم دونوں فریقوں کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ ابھی اس بات کا فیصلہ ہونا باقی ہے کہ کون سے اپوزیشن گروپ دہشت گرد تنظیموں کی مد میں آتے ہیں اور اسی باعث وہ مذاکرات میں شرکت کے اہل نہیں ہوں گے۔

شامی میں گزشتہ پانچ برسوں سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کی طرف سے توثیق کردہ 18 ماہ کے دورانیے پر مشتمل سیاسی عبوری منصوبے کے لیے مذاکرات پہلا مرحلہ ہیں۔ اسد کے حامی ممالک روس اور ایران اور سعودی عرب، خلیجی ممالک، امریکا اور یورپ کے درمیان اس بات پر عدم اتفاق ہے کہ شامی خانہ جنگی میں شریک کون سے گروپوں کو دہشت گرد گروپ قرار دیا جائے۔