1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی باشندوں کی مدد کے لیے لندن میں ڈونرز کانفرنس

شمشیر حیدر4 فروری 2016

برطانیہ اور ناروے نے شامی باشندوں کی مدد کے 2020ء تک 2.9 بلین ڈالرز مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان لندن میں ہونے والی ڈونرز کانفرنس کے تناظر میں کیا ہے جس کا مقصد شام کے لیے امدادی رقم جمع کرنا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HpdM
London Syrien Geberkonferenz Protest
تصویر: picture-alliance/dpa/D.Lipinski

اقوام متحدہ، برطانیہ، کویت اور ناروے کی مشترکہ میزبانی میں آج جمعرات چار فروری کو لندن میں ڈونرز کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس کانفرنس کا مقصد خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے شہریوں کے لیے امدادی رقم جمع کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کو امید ہے کہ رواں برس کے دوران سات ارب ڈالر جمع کیے جا سکیں گے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی اگلے دو برسوں کے دوران شامی مہاجرین کی مدد کے لیے 2.3 بلین یورو امداد مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔

شام میں گزشتہ قریب پانچ برسوں سے جاری خانہ جنگی کے باعث دو لاکھ 50 ہزار سے زائد شامی باشندے ہلاک ہو چکے ہیں۔ جب کہ ساٹھ لاکھ سے زائد افراد اندرون ملک اور چالیس لاکھ شامی باشندے دیگر ممالک میں نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔

اقوام متحدہ کے مختلف اداروں نے شامی باشندوں کی مدد کرنے کی خاطر صرف رواں برس کے لیے 7.73 بلین ڈالر امداد کی اپیل کی ہے۔

یورپی ممالک کی نظر میں بھی شام پناہ گزینوں کے لیے شام اور اس کے پڑوسی ممالک میں صورت حال بہتر بنانا اہمیت کا حامل ہے۔ یورپی ممالک کا خیال ہے کہ ترکی، لبنان اور اردن میں شامی مہاجرین کو بہتر سہولیات کی فراہمی سے ان میں یورپ کی جانب نقل مکانی کے رجحان میں کمی واقع ہو گی۔

Großbritannien Syrien Geberkonferenz in London Empfang Cameron
لندن ڈونرز کانفرنس میں ستّر کے قریب ممالک کے سربراہان اور وزراء کے علاوہ انسانی حقوق کی کئی بین الاقوامی تنظیمیں بھی شرکت کر رہی ہیںتصویر: Getty Images/D. Kitwood

برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے شامی شہریوں کے لیے 1.75 بلین ڈالر امداد فراہم کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’ہم ان میں امید کا احساس پیدا کر سکتے ہیں تاکہ وہ ایسا نہ سوچیں کہ ان کے پاس اپنی جان خطرے میں ڈال کر یورپ کی جانب سفر کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔‘‘

لندن ڈونرز کانفرنس میں ستّر کے قریب ممالک کے سربراہان اور وزراء کے علاوہ انسانی حقوق کی کئی بین الاقوامی تنظیمیں بھی شرکت کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے تمام شرکا سے اپیل کی ہے کہ وہ کانفرنس کے دوران بھرپور یک جہتی کا مظاہر کریں۔

بان کی مون کا کہنا تھا کہ شام سے تعلق رکھنے والے افراد کو کئی سطحوں پر استحصال کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شام میں ان کے لیے زندگی مشکل ہو چکی ہے جب کہ دوران سفر انسانوں کے اسمگلر ان کا استحصال کرتے ہیں اور منزل پر پہنچنے کے بعد میزبان ممالک میں بھی انہیں سختیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ناروے کی خاتون وزیر اعظم اَیرنا سولبرگ نے بھی 1.17 بلین ڈالر مختص کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا، ’’اگر ہم فیصلہ کن لائحہ عمل طے کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو اس سے شامی شہریوں اور شام کے پڑوسی ممالک کے حالات مزید خراب ہو جائیں گے جس کے اثرات کا سامنا پوری بین الاقوامی برادری کو کرنا پڑے گا۔‘‘

چند شامی سماجی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری صرف شامی مہاجرین پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے جب کہ شام کے اندر نقل مکانی کرنے والوں پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید