1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی حکومت کی جانب سے ’اصلاحات‘ کا اعلان، مظاہرے جاری

1 اپریل 2011

شامی حکومت نے ملک میں بعض ’اصلاحات‘ کا اعلان ضرور کیا ہے تاہم یہ اعلان حکومت مخالف مظاہرین کو قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔

https://p.dw.com/p/10ld3
صدر بشار الاسد کو اپنے گیارہ سالہ اقتدار کے سب سے سنگین چیلنج کا سامنا ہےتصویر: AP

حکومت مخالف مظاہرین کے مطالبات کو کسی حد تک پورا کرنے اور مظاہروں پر قابو پانے کے لیے شامی صدر بشار الاسد کی انتظامیہ نے جمعرات کو ملک میں بعض اصلاحات کرنے کا اعلان کیا تاہم مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ آج جمعے کی نماز کے بعد ملک بھر میں مظاہرے کریں گے۔

سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ فیس بک پر شامی انقلاب 2011 نامی ایک گروپ کے پیج پر کہا گیا ہے کہ جمعہ کے روز ہر گھر، ہر عبادت گاہ اور ہر چوک سے ملک کے آزاد شہری باہر نکلیں گے۔

Syrien Proteste Demonstration
حکومت مخالف مظاہرے جمعہ کے روز بھی جاری رہیں گےتصویر: AP

واضح رہے کہ مشرق وسطیٰ کی دیگر ریاستوں کی طرح شام میں بھی معاشی اور سیاسی اصلاحات کے لیے عوامی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ شام میں ان مظاہروں کا آغاز پندرہ مارچ کو ہوا تھا۔

صدر بشار الاسد ان دنوں اپنے گیارہ سالہ دورِ اقتدار کے سنگین ترین سیاسی چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان پر قریباً پچاس برس سے ملک میں ایمرجنسی کے خاتمے کے لیے بھی دباؤ ہے۔ امید کی جا رہی تھی کہ وہ اپنے حالیہ قومی خطاب مبں ایمرجنسی اٹھا نے کا اعلان کریں گے تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ امریکہ اور بین الاقوامی براداری کی جانب سے شامی صدر کے خطاب پر سخت تنقید کی گئی ہے۔

حکومت کی جانب سے جن اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے ان میں ان تین لاکھ کرد باشندوں کے مطالبات پر توجہ دینا بھی ہے جو کہ اب تک شامی شہریت سے محروم ہیں۔ صدر بشار الاسد نے درعا اور لاتاکیا کے شہروں میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں تشدد کے واقعات کی تحقیقات کا بھی حکم دیا ہے۔

حکومت کے مطابق وہ ایمرجنسی اٹھانے پر بھی غور کر رہی ہے اور اس حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو اپنی سفارشات 24 اپریل تک مکمل کر لے گی۔

شامی حکومت کا کہنا ہے کہ  ملک میں مظاہروں کے پیچھے ’بیرونی‘ ہاتھ اور مذہبی بنیاد پرست کار فرما ہیں۔

رپورٹ: شامل شمس ⁄  خبر رساں ادارے

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں