1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی مہاجرین اور اقوام متحدہ کی کانفرنس: قول زیادہ، فعل کم

مقبول ملک1 اپریل 2016

گزشتہ کئی عشروں کے دوران مہاجرین کے شدید ترین بحران کے حوالے سے اقوام متحدہ کو مغربی دنیا کے زیادہ اقدامات کی امید ہے۔ تاہم اب تک اس بحران کا اعتراف زیادہ ہے اور شامی مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے کے ٹھوس وعدے بہت کم۔

https://p.dw.com/p/1INyR
Syrische Flüchtlinge an der türkisch-syrischen Grenze
تصویر: Imago/Zuma

ترقی یافتہ اور خوشحال مغربی ممالک کو اقوام متحدہ کی درخواست پر خانہ جنگی کے باعث ترک وطن پر مجبور ہونے والے قریب نصف ملین اضافی شامی مہاجرین کو اپنے ہاں قبول کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں شامی مہاجرین کی ان کو قبول کرنے والے ملکوں میں منصفانہ تقسیم کے موضوع پر جنیوا میں ہونے والی ایک خصوصی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عالمی ادارے کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے زور دے کر کہا کہ مہاجرین کی وجہ سے بہت زیادہ دباؤ کی شکار شام کی ہمسایہ ریاستوں پر شدید بوجھ کو کم کیا جانا چاہیے۔

معمولی نتائج

جنیوا کی اس عالمی کانفرنس میں بدھ تیس مارچ کے روز قریب 90 ملکوں کے نمائندے شریک ہوئے۔ کانفرنس کا نتیجہ آنکھیں کھول دینے والا تھا۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فیلیپو گرانڈی کے مطابق اس کانفرنس میں شریک ریاستوں نے جن اضافی شامی مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے کے وعدے کیے، ان کی تعداد صرف سات ہزار کے اضافے کے بعد اب ایک لاکھ 85 ہزار بنتی ہے۔

اقوام متحدہ کی سرپرستی میں جنیوا میں اہتمام کردہ اس ایک روزہ کانفرنس کا مقصد اور زیادہ مہاجرین کو اپنے ہاں قبول کرنے کے فوری وعدے کرنا تھا بھی نہیں۔ عالمی برادری کو یہ کام اس سال ستمبر میں نیو یارک میں ہونے والے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے پہلے مہاجرین سے متعلق خصوصی سربراہی کانفرنس تک کرنا ہے۔ اسی لیے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فیلیپو گرانڈی نے امید پسندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’بہت سے حکومتی نمائندوں نے جو دلائل دیے، ہمیں ان کی وجہ سے امید ہے۔‘‘

Türkei Flüchtlingslager Suruc
ترکی میں شامی مہاجرین کا ایک کیمپتصویر: Getty Images/C. Court

ساتھ ہی عالمی ادارے کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین نے یہ اپیل بھی کی کہ گزشتہ ماہ مختلف ملکوں اور ڈونر اداروں نے شام اور شامی مہاجرین کے لیے امداد سے متعلق کانفرنس میں اپنی طرف سے زیادہ مالی امداد کے جو وعدے کیے تھے، انہیں وہ وعدے پورے بھی کرنا چاہییں۔ گرانڈی کو یہ بات اس لیے کہنا پڑی کہ فروری میں ہونے والی شامی ڈونرز کانفرنس میں وعدے تو قریب 12 بلین ڈالر کی فراہمی کے کیے گئے تھے، لیکن اب تک عالمی ادارے کو ان رقوم کا آدھے سے بھی کم حصہ موصول ہوا ہے۔

فیلیپو گرانڈی کے اس موقف سے قبل عالمی ادارے کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کانفرنس کے شرکاء سے اپنے ایک جذباتی خطاب میں کھل کر یہ مطالبہ بھی کیا کہ عالمی برادری کو قانونی بنیادوں پر ترک وطن کے اضافی راستے بھی کھولنے چاہییں۔

بان کی مون نے کہا، ’’شامی جنگ ترک وطن اور جبری بے دخلیوں کی صورت میں ہمارے عہد کے سب سے بڑے بحران کا سبب بنی ہے۔ اسی لیے دنیا بھر میں ان مہاجرین سے اضافی یکجہتی کے اظہار کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ہر وہ ریاست جو اس قابل ہے، اسے اس عمل میں رضاکارانہ طور پر اپنا کردار لازمی ادا کرنا چاہیے۔‘‘

UNHCR Pressekonferenz in Genf Ban Ki-moon und Filippo Grandi
جنیوا کانفرنس کے بعد بان کی مون، بائیں، اور فیلیپو گرانڈی صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: picture alliance/dpa/M. Trezzini

سب سے زیادہ بوجھ ہمسایہ ریاستوں پر

اب تک جو 4.8 ملین سے زائد شامی مہاجرین ترکی، لبنان، اردن، مصر اور عراق میں پناہ گزین ہو چکے ہیں، ان میں سے کم از کم 10 فیصد کو دوسری ریاستوں کو اپنے ہاں پناہ دینا چاہیے۔ یہ تعداد کم از کم بھی چار لاکھ 80 ہزار بنتی ہے۔ یہ تعداد شامی مہاجرین کی آمد کے باعث پڑنے والے اس مجموعی بوجھ کا محض ایک چھوٹا سے حصہ ہے، جس کا کئی سالوں سے شام کی ہمسایہ ریاستوں کو سامنا ہے۔

اس کی چند مثالیں یہ ہیں کہ مشرق وسطیٰ کا چھوٹا سا ملک لبنان اکیلا اب تک ایک ملین سے زائد شامی مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دے چکا ہے۔ ترکی میں شامی مہاجرین کی تعداد 2.7 ملین سے زائد اور اردن میں چھ لاکھ سے زائد بنتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں