1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام: السیدہ زینب علاقے پر حملے، ساٹھ ہلاک

عابد حسین31 جنوری 2016

شامی دارالحکومت کے شیعہ اکثریتی علاقے السیدہ زینب میں کار بم اور خود کش حملوں میں کم از کم 60 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ان حملوں کی ذمہ داری سنی انتہا پسند جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے قبول کر لی ہے۔

https://p.dw.com/p/1HmXY
دمشق میں حضرت زینب کا مزارتصویر: Imago/Invision

شورش زدہ ملک شام کے دارالحکومت دمشق کے قدیمی و تاریخی علاقے السیدہ زینب میں کیے گئے کار بم اور خود کش حملوں میں 60 افراد کی ہلاکت کا بتایا گیا ہے۔ شامی حالات و واقعات پر نگاہ رکھنے والی غیرسرکاری تنظیم سیرین آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کے مطابق جنوبی دمشق میں واقع شیعہ اکثریتی علاقے میں قائم ایک چیک پوائنٹ پر پہلے ایک بارود سے بھری موٹر کار کو اڑایا گیا اور اُس کے بعد اکھٹے ہونے والے لوگوں میں جا کر خود کُش بمبار نے اپنی کارروائی کو مکمل کیا۔ بعض رپورٹوں میں دو اور بعض میں تین حملوں کا بتایا گیا ہے۔

شام کی سرکاری نیوز ایجنسی سانا (SANA) نے ان حملوں میں ہلاک شدگان کی تعداد پینتالیس بتاتے ہوئےتمام کو عام شہری قرار دیا۔ ان حملوں میں 110 سے زائد زخمی بھی ہیں۔ دوسری جانب سیرین آبزرویٹری کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں سویلین کے ہمراہ اسد حکومت کے حامی شیعہ ملیشیا کے کم از کم 25 عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔ اِن حملوں کی ذمہ داری ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے قبول کر لی ہے۔ اس بیان میں جہادی گروپ واضح کیا کہ اُس کے دو کارکنوں نے خود کش حملے کیے تھے۔

Syrien Kämpfer Islam Armee Jaish al-Islam Schatten Silhouette
السیدہ زینب کے علاقے میں کیے گئے حملوں کی ذمہ داری ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے قبول کر لی ہےتصویر: Getty Images/A.Almohibany

شامی وزارتِ داخلہ کے مطابق کار بم حملے کے علاوہ دو خود کش حملے السیدہ زینب کے علاقے میں کیے گئے ہیں جہاں شام کا سب سے مقدس مقام جضرتِ زینب کا مزار واقع ہے۔ سرکاری ٹیلی وژن پر بھی حملے کے بعد جلتے مکانوں اور ٹوٹی پھوٹی موٹر گاڑیوں کے فوٹیج دکھائے گئے۔ السیدہ زینب کا علاقہ انتہائی نگرانی میں ہے اور سرکاری فوج اور لبنان کی شیعہ انتہا پسند تنظیم حزب اللہ کے عسکریت پسند حضرت زینب کے مزار کی جانب جانے والے راستوں پر تعمیر کی گئی کئی چیک پوسٹوں پر مسلسل نگرانی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ دمشق شہر کے انتہائی گنجان آباد علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ لبنان، ایران، بحرین اور دوسرے کئی ملکوں سے شیعہ زائرین حضرتِ زینب کے مزار پر حاضری کو سعادت خیال کرتے ہیں۔

اتوار کے روز کیے گئے حملے ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب سوئٹزرلینڈ میں شامی امن مذاکرات کے فریق جمع ہو گئے ہیں۔ شامی امور کے مبصرین کا خیال ہے کہ یہ حملے جنیوا مذاکرات کو شروع ہونے سے پہلے ہی پٹری سے اتارنے کی کوشش ہو سکتے ہیں۔ عالمی طاقتوں کی کوشش ہے کہ جنیوا مذاکرات میں شامی تنازعے کے سیاسی حل کے لیے بات چیت شروع کی جا سکے اور شامی اپوزیشن کے وفد کا اصرار ہے کہ پہلے انسانی المیے کی مجموعی صورت حال کو بہتر بنانے کی بات ضروری ہے۔