1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں احتجاجی تحریک کو کچلنے کی کارروائی جاری

16 جون 2011

شامی سکیورٹی فورسز نے احتجاجی تحریک کے مراکز کے خلاف اپنی کارروائیوں کا دائرہ مزید پھیلا دیا ہے۔ شمالی تاریخی شہر معرتہ النعمان کے ہزارہا شہری فوجی دستوں اور ٹینکوں سے بچنے کے لیے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/11b3s
تصویر: dapd

معرتہ النعمان کی مقامی آبادی کے مطابق فوج عنقریب کسی بھی لمحے پوری طرح سے شہر کا کنٹرول سنبھالنے والی ہے۔ اس شہر کے تقریباً ایک لاکھ شہریوں میں سے زیادہ تر گھر بار چھوڑ کر پناہ کی تلاش میں ہیں۔ معرتہ النعمان کے نواح میں مارشمشہ نامی گاؤں سے ایک عینی شاہد نے ٹیلیفون پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا:’’فوجی دستے مقامی آبادی کو ہراساں کرنے کے لیے معرتہ النعمان کے مضافات میں اندھا دھند فائرنگ کر رہے ہیں، جس کے باعث آج رات مزید لوگ شہر چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ اس شہر سے لوگ کاروں میں بیٹھ کر اور اُن پر کمبلوں اور گدوں سمیت اپنا ہر طرح کا سامان رکھے تمام سمتوں میں نکل رہے ہیں۔‘‘

شامی فوجی صوبے ادلب کے دیہات میں حکومت کے مخالفین کو تلاش کر رہے ہیں۔ اِسی صوبے میں معرتہ النعمان کے ساتھ ساتھ جسرالشغور بھی شامل ہے، جس کا کنٹرول فوج پہلے ہی سنبھال چکی ہے۔ شام کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق فوج نے اِس شہر میں امن و امان کی صورت حال بحال کر دی ہے اور اب شہری واپس آنا شروع ہو گئے ہیں تاہم اس شہر سے نکلنے والے شہریوں نے اِن خبروں کی تردید کی ہے۔

NO FLASH Syrien Unruhe Krise Gewalt
شامی فوجی صوبے ادلب کے دیہات میں حکومت کے مخالفین کو تلاش کر رہے ہیںتصویر: dapd

درحقیقت سرحد عبور کر کے جو ساڑھے آٹھ ہزار شامی شہری ترکی پہنچ چکے ہیں، اُن کی بڑی تعداد کا تعلق جسر الشغور سے ہی بتایا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ سرحد کے قریب شام ہی کی سرزمین پر مزید تقریباً دَس ہزار شامی شہری سرحد عبور کر کے ترکی میں داخل ہونے کے منتظر ہیں۔ وہاں موجود ایک شامی شہری خالد نے، جس کا تعلق جسر الشغور سے ہے، کہا کہ ترک اب پہلے کی طرح اُنہیں سرحد پار نہیں کرنے دے رہے ورنہ مزید ہزاروں شامی شہری سرحد پار کر جائیں۔ خود شام کی سکیورٹی فورسز نے بھی سرحد پر پابندیاں مزید سخت کر دی ہیں تاکہ لوگوں کو غیر قانونی طور پر سرحد پار جانے سے روکا جا سکے۔

شامی اپوزیشن کا کہنا ہے کہ عراق کے ساتھ ملنے والی شامی سرحد پر بھی شامی ٹینک دو شہروں میں گھس گئے۔ صدر بشار الاسد کی حکمرانی کے خلاف ہزارہا شامی شہریوں کے نئے احتجاجی مظاہرے معرتہ النعمان سے 60 کلومیٹر جنوب کی طرف واقع شہر Hama کے ساتھ ساتھ دمشق کے نواح میں بھی ہوئے ہیں تاہم خود دارالحکومت دمشق میں صدر اسد کے ہزارہا حامیوں نے مظاہرہ کیا۔

اِدھر وفاقی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے شام میں جاری طاقت کے استعمال پر سخت تشویش ظاہر کی ہے۔ برلن میں حکومتی ترجمان اسٹیفن زائبرٹ کے مطابق میرکل نے ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن کے ساتھ ایک ٹیلی فون گفتگو میں اِس عرب ملک کے حالات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ شام کے حالات کے ذمہ داروں کو طاقت کا استعمال فوری طور پر بند کر دینا چاہیے۔ ایردوآن نے انقرہ میں شامی صدر بشار الاسد کے ایک خصوصی ایلچی کے ساتھ ملاقات میں مطالبہ کیا کہ احتجاجی تحریک کو کچلنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔

NO FLASH Flüchtlingslager im Grenzgebiet zwischen der Türkei und Syrien
ترکی نے شام کے ساتھ ملنے والی سرحد کے قریب شامی مہاجرین کے لیے دو مزید کیمپ قائم کر دیے ہیںتصویر: AP

ترکی نے شام کے ساتھ ملنے والی سرحد کے قریب شامی مہاجرین کے لیے دو مزید کیمپ قائم کر دیے ہیں۔ ترک وزیر خارجہ احمد داوت اوگلو نے، جو عربی زبان بھی بولتے ہیں، سرحد پر جا کر شامی مہاجرین سے گفتگو کی اور اُن کا حال معلوم کیا۔

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق شام میں احتجاجی تحریک شروع ہونے کے بعد سے اب تک تقریباً گیارہ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ حقوقِ انسانی کے علمبردار شامی گروپ اب تک مرنے والوں کی تعداد 1300 بتا رہے ہیں۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں