1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں امن سے پہلے عبوری دور میں اسد کی شمولیت ناممکن، ترکی

مقبول ملک
28 دسمبر 2016

ترکی نے کہا ہے کہ شامی تنازعے کے خاتمے اور حتمی قیام امن سے پہلے کسی بھی عبوری حل میں شامی صدر بشار الاسد کی شمولیت ناممکن ہو گی اور انقرہ حکومت ایسے کسی بھی سیاسی امکان کو قبول نہیں کرے گی۔

https://p.dw.com/p/2UxX5
Syrien Aleppo nach der Kapitulation der Rebellen
کئی سالہ خانہ جنگی سے تقریباﹰ پورا شام ملبے کا ڈھیر بن چکا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/TASS/T. Abdullayev

استنبول سے بدھ اٹھائیس دسمبر کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے آج کہا کہ شامی تنازعے کے کسی عبوری اور قلیل المدتی تصفیے میں بھی موجودہ صدر بشار الاسد کا شامل کیا جانا ممکن نہیں ہو گا۔

مولود چاوش اولو نے کہا کہ بین الاقوامی سیاسی اور سفارتی کوششوں سے اگر ایسا کوئی حل نکالنے کی کوشش کی بھی گئی، تو شامی اپوزیشن بشار الاسد کے آئندہ بھی اقتدار میں رہنے کو کبھی قبول نہیں کرے گی۔

وزیر خارجہ چاوش اولو نے صحافیوں کو بتایا کہ ترکی نے شام کی خونریز خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے فائر بندی سے متعلق ایک معاہدے کی دستاویز بھی تیار کر لی ہے۔ ساتھ ہی ترکی کے سرکاری میڈیا نے بھی آج بتایا کہ ترکی اور روس کے مابین ایک ایسی تجویز پر اتفاق رائے بھی ہو گیا ہے، جس کا مقصد شام میں ایک عمومی جنگ بندی معاہدے کا حصول ہو گا۔

اسی دوران شام میں جنگ بندی معاہدے سے متعلق ترکی سے ملنے والی ان نئی رپورٹوں کے برعکس ماسکو میں کریملن کی طرف سے آج ہی یہ کہا گیا کہ ماسکو ترک سرکاری نیوز ایجنسی انادولو کی ان رپورٹوں کی تصدیق نہیں کر سکتا کہ شام میں عام جنگ بندی سے متعلق ترکی اور روس کے مابین کوئی اتفاق رائے ہو گیا ہے۔

Syrien Evakuierung aus Aleppo
شامی عوام کو کئی برسوں سے خونریز خانہ جنگی کا سامنا ہےتصویر: picture-alliance/Photoshot/A. Safarjalani
Russland Treffen zwischen Russland, Iran und Türkei in Moskau
ترک وزیر خارجہ چاوش اولو، بائیں، روسی ہم منصب لاوروف کے ساتھتصویر: picture-alliance/dpa/M. Shipenkov

کریملن کے ترجمان دیمیتری پیسکوف نے صحافیوں کو بتایا، ’’فی الحال کافی معلومات دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے اس بات کی تصدیق نہیں کی جا سکتی کہ شام میں سیزفائر کے بارے میں انقرہ اور ماسکو کے مابین کوئی اتفاق رائے ہو گیا ہے۔‘‘

خبر ایجنسی روئٹرز کے مطابق کریملن کے ترجمان پیسکوف نے صحافیوں کو بتایا، ’’ہم اپنے ترک ساتھیوں کے ساتھ ان ممکنہ امن مذاکرات کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے مسلسل رابطے میں ہیں، جن کے آستانہ میں انعقاد کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔‘‘

آستانہ میں ممکنہ امن مذاکرات سے کریملن کے ترجمان کی مراد وہ امن بات چیت ہے، جس کے روس شامی صدر بشار الاسد کے ایک قریبی حلیف ملک کے طور پر قزاقستان میں انعقاد کی کوششیں کر رہا ہے۔ پیسکوف نے کہا، ’’یہ جملہ کاوشیں شامی تنازعے کا ایک پرامن اور دیرپا سیاسی حل نکالنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔‘‘

شامی تنازعے سے متعلق ترکی کے امریکی اور مغربی دنیا کی پالیسیوں سے عدم اطمینان ہی کے پس منظر میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے ابھی کل منگل کے روز کہا تھا کہ انقرہ شام سے متعلق امریکی اور مغربی حکمت عملی پر اس لیے نالاں ہے کہ یہ پالیسیاں محض ’توڑ دیے گئے وعدوں پر مبنی‘ ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں