1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں روسی فضائی حملے، امریکا اور یورپی یونین کے تحفظات

عاطف بلوچ2 اکتوبر 2015

روسی جنگی طیاروں نے آج مسلسل تیسرے دن بھی شام میں بمباری جاری رکھی۔ ماسکو کا کہنا ہے کہ وہ داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے لیکن شواہد ملے ہیں کہ ایسے علاقوں میں بھی کارروائی کی گئی ہے، جہاں دیگر باغی گروہ فعال ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GhqJ
Russland Stealth-Kampfjet T-50
تصویر: Getty Images/AFP/D. Kostyukov

شام کی صورتحال پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ روسی جنگی طیارے، جن علاقوں پر فضائی حملے کر رہے ہیں، وہاں یا تو انتہا پسند گروہ داعش فعال ہی نہیں یا پھر وہاں اس کا کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے۔ لندن میں قائم اس ادارے کی طرف سے ایسے الزامات کے بعد یورپی یونین نے بھی کہا ہے کہ روسی جنگی طیاروں کو شام میں صرف جہادیوں کو ہی نشانہ بنانا چاہیے۔

یورپی یونین کے خارجہ امور کی ترجمان کیتھرین رے کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، ’’ہم حمص میں روسی جنگی طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں شہری ہلاکتوں کی خبروں پر شدید تحفظات رکھتے ہیں۔ ہم روس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ محتاط طریقے سے صرف جہادیوں کو ہی نشانہ بنائے۔‘‘

ادھر واشنگٹن حکومت نے کہا ہے کہ ماسکو حکومت شام میں اپنی فضائی کارروائیوں کو جہادیوں کے خلاف قرار دے کر دراصل صدر بشار الاسد کے مخالف دیگر گروہوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ روس نے ان فضائی حملوں میں ایسے گروہوں کو نشانہ بنایا ہے، جو نہ صرف بشار الاسد کے بلکہ داعش کے بھی خلاف ہیں۔ ان میں ایسے گروہ بھی ہیں، جن میں شامل اعتدال پسند باغیوں کو امریکی عسکری ماہرین نے تربیت فراہم کر رکھی ہے۔

ماسکو کا کہنا ہے کہ جمعے کے دن اس کے جنگی طیاروں نے داعش کے بارہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ تاہم جن علاقوں میں یہ تازہ کارروائی کی گئی ہے، وہاں داعش کے فعال ہونے کے کوئی شواہد نہیں ہیں۔ روسی وزارت دفاع کے مطابق جمعے کو مغربی اور شمالی شام کے علاقوں میں فضائیہ نے مجموعی طور پر اٹھارہ پروازیں بھری۔

سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے سربراہ رامی عبدالرحمان کے مطابق روس کے تازہ حملوں میں حلب صوبے میں النصرہ فرنٹ کے جنگجوؤں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ شام میں فعال یہ شدت پسند گروہ القاعدہ نیٹ ورک سے وابستہ ہے۔ رامی کے مطابق البتہ کچھ حملوں میں داعش کے ٹھکانوں کو بھی ہدف بنایا گیا ہے۔ ایسے ہی ایک حملے میں الرقہ میں داعش کے بارہ شدت پسند مارے گئے۔ اسی طرح روسی جنگی طیاروں نے القریتین میں بھی ان جہادیوں کو نشانہ بنایا ہے۔

Karte Russische Präsenz und Luftangriffe in Syrien englisch NEU!
ماسکو کا کہنا ہے کہ جمعے کے دن اس کے جنگی طیاروں نے داعش کے بارہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا

دریں اثناء لبنان میں ذرائع نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ سینکڑوں ایرانی فوجی بھی شام میں داخل ہو چکے ہیں، جو زمینی لڑائی میں شیعہ جنگجو گروہ حزب اللہ اور عراقی جنگجو ملیشیاؤں کے ہمراہ مل کر صدر بشار الاسد کی افواج کو عملی مدد فراہم کر رہے ہیں۔

یہ امر اہم ہے کہ امریکا اور روس دونوں ہی داعش کو اپنا مشترکہ دشمن قرار دیتے ہیں لیکن اس جہادی گروہ کے خلاف کارروائی کے لیے کسی مشترکہ حکمت عملی پر متفق نہیں ہیں۔ امریکا کا کہنا ہے کہ شام میں قیام امن کے لیے صدر بشار الاسد کا اقتدار سے الگ ہونا ناگزیر ہے جبکہ روس کا موقف ہے کہ صدر اسد کے بغیر شام میں پائیدار امن ممکن نہیں ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں