1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں ’محفوظ علاقوں کا قیام‘ معاہدہ طے پا گیا

4 مئی 2017

ترکی، ایران اور روس نے جنگ زدہ شام میں ’محفوظ علاقوں کے قیام‘ کے ایک معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ یہ مذاکرات قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں جاری تھے، جہاں شامی اپوزیشن نے ایران کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

https://p.dw.com/p/2cOLu
Kasachstan Syriengespräche in Astana | Staffan de Mistura & Alexander Lavrentiev
تصویر: Getty Images/AFP

 آستانہ میں روس، ترکی اور ایران نے شام کے شمال، مرکز اور جنوب میں چار ’محفوظ علاقوں کے قیام‘ پر اتفاق کیا ہے۔ اس کا مقصد شام میں جاری تشدد میں کمی لانا بتایا گیا ہے۔ دوسری جانب جس وقت یہ تین ملک اس معاہدے پر دستخط کر رہے تھے، اس وقت شامی اپوزیشن کے اراکین ایران مخالف نعرے بلند کرتے احتجاجاﹰ کانفرنس روم سے باہر چلے گئے۔

شامی اپوزیشن کے اراکین کا کہنا تھا کہ ایران کو اس کانفرنس میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے تھا اور یہ کہ اسے ضامن بھی نہیں بنایا جا سکتا کیوں کی وہ خود شامی جنگ میں ایک فریق کے طور پر شریک ہے۔

بتایا گیا ہے کہ ’محفوظ علاقوں‘ یا ’محفوظ زونز‘ میں لڑائی روک دی جائے گی اور حکومتی فورسز بھی ان علاقوں میں بمباری نہیں کریں گی۔ ان محفوظ علاقوں میں ادلب اور حمص کے صوبوں کے کچھ حصوں کے ساتھ ساتھ دمشق کا مشرقی علاقہ غوطہ اور جنوب کے کئی علاقے بھی شامل ہیں۔

ابھی تک اس معاہدے کی تفصیلات منظر عام پر نہیں لائی گئیں اور یہ بھی ابھی واضح نہیں ہے کہ آیا اس سمجھوتے کی پاسداری کا خیال رکھنے کے لیے وہاں بین الاقوامی مبصرین کو بھیجا جائے گا۔

دسمبر میں آستانہ ہی میں روس، ترکی اور ایران کی ثالثی سے فائر بندی کا ایک معاہدہ طے پایا تھا، جس پر چند ہفتے تو عمل کیا گیا تھا لیکن بعدازاں اس کی خلاف وزریاں شروع ہو گئیں تھیں۔

قزاقستان میں مذاکرات کے لیے روس کے وفد کے سربراہ الیگزینڈر لاورنتیف کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں شامی حکومت اس وقت تک معاہدے کی پاسداری کرے گی جب تک باغیوں کی طرف سے حملے نہیں کیے جاتے۔ ان کے مطابق اگر فریقین متفق ہوئے تو ان علاقوں میں بین الاقوامی مبصرین کو بھی بھیجا جا سکتا ہے۔

دریں اثناء ان علاقوں میں القاعدہ سے منسلک گروپوں کے خلاف فوجی آپریشن جاری رکھنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ ترکی کی وزارت خارجہ نے اس معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے لیکن باغیوں کی جانب سے ایرانی کردار پر تحفظات کا اظہار جاری ہے۔