1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں پھنسی ہوئی نیپال اور بنگلہ دیش کی اسمگل شدہ خواتین

امتیاز احمد13 مارچ 2016

نیپالی گاؤں سے تعلق رکھنے والی سنیتا مگر کو یہ بتایا گیا تھا کہ اسے کویت کی ایک فیکڑی میں کام دیا جا رہا ہے لیکن اسے اپنے ساتھ ہونے والے دھوکے کا علم اس وقت ہوا، جب ہوائی جہاز دمشق میں لینڈ کر چکا تھا۔

https://p.dw.com/p/1ICNh
Sunita Magar illegale nepalesische Migranten in Syrien
تصویر: Getty Images/AFP/P. Mathema

اس نیپالی خاتون نے شام کے ایک گھرانے میں تقریباﹰ تیرہ ماہ گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کیا۔ اس کے مطابق اسے اکثر اوقات چھڑی کے ساتھ مارا پیٹا بھی جاتا تھا اور کھانا بھی دن میں صرف ایک وقت کا دیا جاتا تھا۔ اس دوران وہ التجائیں کرتی رہی کہ اسے واپس گھر جانے دیا جائے۔ دو بچوں کی ماں سنیتا کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میں صدمے میں تھی اور میرا رونا بھی بند نہیں ہوتا تھا۔‘‘

سنیتا مگر نیپال اور بنگلہ دیش کی ان درجنوں خواتین میں سے ایک ہیں، جنہیں مشرق وسطیٰ میں اچھی ملازمتوں کا جھانسا دیا گیا لیکن بعدازاں انہیں شام اسمگل کر دیا گیا، جو خود گزشتہ پانچ برسوں سے خانہ جنگی کا شکار ہے۔ اس خطے میں ایک نیپالی سفارت کار کا کہنا تھا کہ صرف بنگلہ دیش اور نیپال ہی کی بات نہیں ہے بلکہ فلپائن ، انڈونیشیا اور اس طرح کے دیگر ملکوں کی ملازماؤں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگ اب کام کرنا چھوڑ رہے ہیں کیوں کہ شام میں خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔

قاہرہ میں نیپال کے سفارتی مشن کے سربراہ کوشل کشول رائے کا کہنا تھا، ’’ کیوں کہ اس غیرقانونی کاروبار میں ملوث افراد نیپالیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ہمارے اندازوں کے مطابق تقریباﹰ پانچ سو نیپالی خواتین اس وقت شام میں ہیں۔‘‘

Sunita Magar illegale nepalesische Migranten in Syrien
تصویر: Getty Images/AFP/P. Mathema

دوسری جانب شاہی نور بیگم کا ڈھاکہ کے ایک ہسپتال میں علاج جاری ہے۔ شاہی نور بیگم کے لیے شام میں گزارے سات ماہ کسی خوفناک خواب سے کم نہ تھے، انہیں جنسی غلام کے طور پر شام اسمگل کیا گیا تھا۔ شاہی نور بھی دو بچوں کی ماں ہے۔ شام میں گزرے ہوئے وقت کے بارے میں اس کا کہنا تھا، ’’مجھےایک شامی مرد کے ہاتھوں بیچ دیا گیا تھا، جو مجھے روزانہ جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا تھا اور تشدد بھی کرتا تھا۔ اور کبھی کبھار اس کے دوست بھی اسی طرح کرتے تھے۔‘‘ وہ کہتی ہیں، ’’ میں نے ان سے مسلسل رحم کی درخواست کرتی رہی لیکن انہوں نے رحم کی بجائے مجھے مارنا شروع کر دیا اور اسی باعث میرے بازو بھی ٹوٹ گئے۔‘‘

اس اٹھائیس سالہ خاتون کے مطابق ان کے ایجنٹ نے کئی دیگر خواتین سمیت انہیں اردن میں ملازمت دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن انہیں شام لے جایا گیا۔ نور بیگم گردوں کی بیماری میں بھی مبتلا ہو چکی ہے اور اسمگلروں نے اس کی والدہ کو فون کرتے ہوئے کہا کہ اسے رقم ادا کرنے کی صورت ہی میں واپس بنگلہ دیش بھیجا جائے گا۔

بنگلہ دیش کی ایلیٹ ریپڈ ایکشن بٹالین کے لیفٹیننٹ کرنل غلام سرور کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم اس سلسلے میں تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے کیوں کہ دیگر تینتالیس خواتین کے اہلخانہ نے بھی اسی طرح کی شکایات درج کروائی ہیں۔

کرنل سرور کا بھی کہنا تھا کہ بنگلہ دیش اسمگلروں کا آسان ہدف بن چکا ہے۔ سنیتا مگر اور نور بیگم ان چند خوش قسمت خواتین میں سے ہیں، جن کے بارے میں مقامی میڈیا نے آواز اٹھائی اور چندے سے جمع ہونے والی رقم ادا کرتے ہوئے ان کی محفوظ واپسی ممکن ہوئی۔ ایسی درجنوں خواتین ابھی تک شام میں پھنسی ہوئی ہیں۔