1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کے بحران کا سیاسی حل مکالمت سے ممکن ہے: چینی وزیر اعظم

کشور مصطفیٰ29 اکتوبر 2015

چینی وزیر اعظم لی کیچیانگ نے جمعرات کو چین کے دورے پر آئی ہوئی جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ساتھ بات چیت میں شام کے بحران سے متعلق چینی موقف کو دھراتے ہوئے اس کے سیاسی حل پر زور دیا۔

https://p.dw.com/p/1GwO6
تصویر: Reuters/J. Lee

آج جمعرات کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل بیجنگ پہنچیں تو ان کا استقبال چینی وزیر اعظم نے کیا۔ دونوں رہنماؤں کی اس ملاقات میں چین اور جرمنی کے مابین دو طرفہ تجارتی تعلقات کے فروغ کے علاوہ عرب ریاست شام کی خانہ جنگی کے موضوع پر بھی بات چیت ہوئی۔

چین ہمیشہ سے شام کے تنازعے کے حل کے لیے طاقت کے استعمال کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ بیجنگ حکام کا دیرینہ موقف یہ ہے کہ شام کے تنازعے کا سیاسی حل تلاش کیا جانا چاہیے۔

China Bundekanzlerin Merkel in Peking
میرکل اور لی کیچیانگ کی بینجگ میں مشترکہ پریس کانفرنستصویر: Reuters/Kyodo News/M. Someya

گزشتہ ماہ روس نے شام میں صدر بشار الاسد کے خلاف برسرپیکار باغیوں پر فضائی حملے شروع کر دیے جس کے بعد سے شام کی صورتحال مزید پیچیدہ اور سنگین ہو گئی ہے۔ شام کی خانہ جنگی میں امریکی اتحادیوں اور روسی فضائی حملوں سے اِس بحران نے علاقائی تنازعے کی جگہ بین الاقوامی شکل اختیار کر لی ہے۔ روس کی شام میں مداخلت کو مغربی طاقتوں کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ مغربی دنیا کا کہنا ہے کہ روس کے اس اقدام سے شام کے صدر بشار الاسد کے ہاتھ مضبوط ہو رہے ہیں۔

لی کیچیانگ نے جمعرات کو میرکل کے ساتھ ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ شام کے تنازعے کا حل ناگزیر ہے اور یہ مسئلہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ لی کا کہنا تھا،’’ سب سے اہم امر یہ ہے کہ شام کے بحران کا سیاسی حل تلاش کیا جائے اور اس کے لیے ایک مساوی اور کُھلی مکالمت کو بروئے کار لایا جائے‘‘۔

لی کیچیانگ کا کہنا ہے کہ متعدد عالمی لیڈروں نے شام کے بحران کے حل کے لیے مشورے دیے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا،’’ میں سمجھتا ہوں کے ان تمام مشوروں، خاص طور سے اقوام متحدہ کی تجویز کو جمع کر کے شام کے بحران کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے‘‘۔ چینی وزیر اعظم نے شامی بحران کے حل کے لیے اپنے ملک کے ’’ تعمیری کردار ‘‘ کو برقرار رکھنے کی یقین دہانی کرائی۔

امریکا اور اُس کے اتحادی بھی شام میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف فضائی حملے کرتے رہے ہیں اور اِس اتحاد کی طرف سے اسد حکومت کے خلاف بر سرپیکار اپوزیشن گروپوں کی بھی حمایت کی جاتی رہی ہے۔ جبکہ چین اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے دوسرے مستقل رُکن روس کے ساتھ شام کے بارے میں ہونے والی ووٹنگ میں شامل رہا ہے۔ بیجنگ نے ہمیشہ شام کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور وہ اس بحران کے سیاسی حل کی ضرورت کے اپنے موقف کو دھراتا رہا ہے۔

Syrien - Russische Soldaten unterstützen Assad
روس شام میں اسد حکومت کا سااتھ دے رہا ہےتصویر: Reuters//Ministry of Defence of the Russian Federation

اگرچہ چین مشرق وسطیٰ کے خطے میں پائے جانے والے تیل پر انحصار کے باوجود وہاں کی سیاست میں بہت اہم سفارتی کردار ادا نہیں کرتا تب بھی وہ بارہا متنبہ کر چکا ہے کہ ملٹری ایکشن کبھی بھی کسی بحران کا حل نہیں ہو سکتا۔

جرمن چانسلر کے ساتھ چینی وزیر اعظم نے شام کے تنازعے پر ایک ایسے وقت میں مذاکرات کیے ہیں جب میرکل کو شام اور افغانستان کے مہاجرین کی جرمنی میں داخل ہونے کی وجہ سے انہیں اندرون اور بیرون ملک غیر معمولی دباؤ کا سامنا ہے۔

چینی وزیر اعظم نے مہاجرین کے بحران پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یورپ کے متعلقہ ملکوں سے اپیل کی کے وہ مہاجرین کے بحران کو مناسب اقدامات کے ذریعے حل کریں اور اس مسئلے کو ایک انسانی المیہ بننے سے بچا لیں۔