1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

يورپ ميں مہاجرين کے ليے گرم جوشی کم اور سختياں زيادہ

عاصم سليم8 نومبر 2015

تجزيہ کاروں کا ماننا ہے کہ اسکينڈے نيويا پہنچنے والے مہاجرين کی تعداد ميں اضافے کے سبب ان کے استقبال ميں گرم جوشی کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور دائيں بازو کے گروپوں کی ترجيحات پناہ سے متعلق پاليسی پر اثر انداز ہو رہی ہيں۔

https://p.dw.com/p/1H1ol
تصویر: Getty Images/AFP/R. Atanasovskia

شمالی يورپ کے ملکوں ڈنمارک، سويڈن اور ناروے پر مشتمل خطے کو مجموعی طور پر اسکينڈے نيويا کہا جاتا ہے۔ یہ ممالک، بشمول شمالی بحر اوقيانوس کا جزیرہ آئس لينڈ، ملتی جلتی زبانوں اور ثقافتوں کے حامل ہیں۔ مہاجرين کے بحران کی ابتداء ميں يہ ممالک اگرچہ کافی نرم رويے کے حامل تھے تاہم اب ڈنمارک، فن لينڈ، ناروے اور سويڈن بھی پناہ گزينوں کو فراہم کی جانے والی سہوليات ميں کمی جبکہ سياسی پناہ سے متعلق پاليسيوں ميں سختی متعارف کرا رہے ہيں۔

ناروے سے تعلق رکھنے والے بين الاقوامی امور کے ايک ماہر Asle Toje بتاتے ہيں، ’’ايسا معلوم ہوتا ہے کہ جيسے مہاجرين کو فراہم کی جانے والی سہوليات ميں کمی کے حوالے سے ايک مقابلہ جاری ہے۔‘‘

ڈنمارک ميں انتہائی دائيں بازو کی جماعت ڈينش پيپلز پارٹی (DPP) کے پاليسی سازی ميں اثر انداز ہونے کے بعد 2001ء سے ہجرت سے متعلق پاليسی سخت ہوتی چلی آئی ہے۔ رواں سال ہونے والے انتخابات ميں يہ پارٹی ملک کی دوسری سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ ڈنمارک ميں مہاجرين کی آمد کے سلسلے کی حوصلہ شکنی کے ليے جولائی ميں سياسی پناہ کے متلاشی افراد کو دی جانے والی مراعات ميں کٹوتی کا فيصلہ کر ليا گيا تھا۔ نئے قوانين کا اطلاق ستمبر سے ہو چکا ہے، جن کے تحت اب وہاں پہنچنے والے پناہ گزين کو ماہانہ 5,945 کرونر ديے جاتے ہيں جبکہ پہلے فی پناہ گزين 10,849 کرونر ديے جاتے تھے۔

ايسا معلوم ہوتا ہے کہ ڈينش حکام کا يہ اقدام کام کر رہا ہے اور مطلوبہ ہدف حاصل ہو رہا ہے۔ ستمبر ميں ڈنمارک پہنچنے والے پناہ گزينوں کی تعداد ميں کمی رونما ہوئی جبکہ اسی دوران خطے کے ديگر ممالک ميں مہاجرين کی آمد کے نئے ريکارڈ قائم ہو رہے ہيں۔

دريں اثناء ناروے اور فن لينڈ دونوں ہی ممالک کی حکومتيں ہجرت مخالف رجحانات کی حامل ہيں اور اسی طرز پر پناہ گزينوں کی مرعات ميں کمی متعارف کرا رہی ہيں۔ سويڈن ميں دائيں بازو کی جماعت پراگريس پارٹی سے منسلک ملکی وزير انصاف Joran Kallmyr کہتے ہيں، ’’يہ واضح ہے کہ نارڈک ممالک ويلفيئر اسٹيٹس ہيں اور يہاں عوام کو مراعات دی جاتی ہيں ليکن سوال يہ ہے کہ کيا ہميں يہ نئے آنے والوں کے ساتھ بانٹنی چاہييں؟‘‘

سويڈن ميں اس سال کے اختتام تک 190,000 پناہ گزينوں کے پہنچنے کا امکان ہے
سويڈن ميں اس سال کے اختتام تک 190,000 پناہ گزينوں کے پہنچنے کا امکان ہےتصویر: Getty Images/AFP/R. Atanasovskia

انتہائی آزاد خيال معاشرے کے حامل ملک سويڈن ميں بھی مہاجرين کے ليے اب تک کے دوستانہ رويے ميں کمی رونما ہو رہی ہے۔ وہاں بھی انتہائی دائيں بازو کی جماعت سويڈن ڈيموکريٹس پارٹی کی بڑھتی ہوئی مقبوليت کے تناظر ميں اب ديگر يورپی ملکوں سے مطالبہ کيا جا رہا ہے کہ وہ مہاجرين کا بوجھ بانٹيں۔ سويڈن ميں پناہ گزينوں کے ليے فيملی ری يونيفيکيشن يا اپنے اہل خانہ کو وہاں بلانے سے متعلق قوانين ميں سختی بھی زير غور ہے۔ ہفتے کے روز سويڈن ميں مہاجرين کے ايک کيمپ کو نذر آتش بھی کر ديا گيا۔

شمالی يورپی ممالک کی جانب سے پناہ گزينوں کی آمد کے سلسلے کو ان کے آبائی ملکوں ہی ميں روکنے کے ليے ذرائع ابلاغ پر بھی مہم چلائی جا رہی ہے۔ ستمبر ميں ڈنمارک کی حکومت نے لبنانی اخباروں ميں انتباہی اشتہارت شائع کرائے۔ ناروے اور فن لينڈ کی حکومتوں نے بھی سماجی رابطے کی ويب سائٹ فيس بُک کے ذريعے اپنے پيغامات متعلقہ لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔