1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی کوریا پر امریکی صدر سے واضح اختلاف ہے، جرمن چانسلر

امتیاز احمد ڈی ڈبلیو
20 ستمبر 2017

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ شمالی کوریا کے خلاف کسی بھی قسم کی فوجی کارروائی کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کے مطابق اس مسئلے کو صرف اور صرف سفارتی طریقے سے ہی حل کیا جانا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/2kP3i
Deutschland wählt DW Interview mit Angela Merkel
تصویر: DW

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شمالی کوریا کے حوالے سے پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ امریکی صدر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ وہ شمالی کوریا کو ’مکمل تباہ‘ کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے جرمن چانسلر نے کہا ہے، ’’ میں ایسی کسی بھی دھمکی کے خلاف ہوں۔ میں یہ وفاقی حکومت کی طرف سے بھی کہہ رہی ہوں۔ ہم کسی بھی فوجی کارروائی کے خلاف ہیں، اسے نامناسب سمجھتے ہیں اور سفارتی کوششوں پر متفق ہیں۔ سفارتی کوششوں پر ہی مزید زور دیا جانا چاہیے۔ میری رائے میں پابندیاں اور ان پر عمل درآمد بالکل صحیح جواب ہے۔ لیکن شمالی کوریا کے خلاف کوئی بھی دوسری کارروائی غلط ہو گی۔ اس ضمن میں ہمارا اور  امریکی صدر کا موقف ایک دوسرے سے مختلف ہے۔‘‘

کیا شمالی کوریا کے خلاف فوجی کارروائی ہونی چاہیے؟

میرکل اور شلس کا ٹی وی مباحثہ، اہم موضوعات کیا تھے؟

جرمن چانسلر کا کہنا تھا کہ انہوں نے جنرل اسمبلی کی تقریر سے پہلے بھی امریکی صدر سے فون پر بات کرتے ہوئے اپنا موقف واضح کیا تھا۔ جرمن چانسلر نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ جرمنی اس مسئلے کے سفارتی حل کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔

عوامی جائزوں کے مطابق جرمن سیاسی جماعت سی ڈی یو کی سربراہ میرکل آئندہ انتخابات میں اپنے حریف مارٹن شلس سے آگے ہیں اور وہ ایک مرتبہ پھر جرمن چانسلر کا عہدہ سنبھال سکتی ہیں۔ لیکن کیا وہ جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی اور عوامیت پسند جماعت ’اے ایف ڈی‘ کے ساتھ مل کر بھی کام کر سکتی ہیں؟ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا، ’’میں کبھی بھی اے ایف ڈی کے ساتھ کام نہیں کروں گی۔‘‘ جرمنی میں مقبولیت حاصل کرنے والی مہاجرین اور اسلام مخالف اس جماعت کے حوالے سے جرمن چانسلر کا مزید کہنا تھا، ’’اس جماعت کے خلاف بہترین اسٹریٹیجی یہ ہے کہ عوام کے مسائل حل کیے جائیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ جرمن عوام روزگار، مناسب تعلیم کے مواقع اور طبی سہولیات کے حوالے سے پریشان ہیں اور اس حوالے سے اقدامات ہونے چاہئیں۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تشدد اور نفرت کے خلاف ایک واضح رکاوٹ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

مہاجرین کے لیے روزگار کے مواقع کم کیوں ہیں؟

جرمنی میں غیر ملکیوں کی سب سے بڑی تعداد کا تعلق ترکی ہے۔ ڈی ڈبلیو کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے ترکی کے حوالے سے بھی بات چیت کی ہے، ’’ہمارے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ جرمنی میں ترکی کے مختلف گروہ ایک دوسرے  کی جزوی طور پر جاسوسی یا نگرانی کر رہے ہیں۔ ہم یہ نہیں چاہتے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ترکی کے تنازعات جرمنی تک پہنچیں۔ ہم یہ بھی یقینی بنائیں گے کہ تمام گروپ یہاں پر امن اور غیر جانبدار رہ سکتے ہیں۔‘‘

گزشتہ برس ریکارڈ تعداد میں مہاجرین جرمنی پہنچے ہیں۔ جرمن چانسلر کی طرف سے مہاجرین کو پناہ دینے کے اعلان کے بعد ان کی مقبولیت میں واضح کمی ہوئی تھی جبکہ دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں نے بھی اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔ جرمنی میں آنے والے مہاجرین کے حوالے سے چانسلر میرکل کا کہنا تھا، ’’ بہت سے (مہاجرین) جرمن بیوروکریسی کو بہت سست سمجھتے ہیں  اور روزگار کی منڈی میں بہت جلد داخل ہونا چاہتے ہیں۔ لیکن فی الحال ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہم مقابلہ بازی کی صورتحال تباہ کن نہیں بنانا چاہتے۔ بہت سے جرمن شاید روزگار کی تلاش میں ہیں اور انہیں وہ مخصوص روزگار نہیں مل رہا۔ ہمیں بار بار یہاں توازن تلاش کرنا ہوگا۔‘‘