1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی کوریا کے ساٹھ سال

افضال حسین9 ستمبر 2008

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے سے قبل نیم جزیرہ کوریا، جاپان کے قبضے میں تھا۔ یہاں ،منچوریا اور اردگرد کے علاقوں میں تقریباً دو ملین جاپانی فوجی تعینات تھے۔

https://p.dw.com/p/FF1C
تصویر: AP

ہیروشما اور ناگاساکی میں امریکہ کی جانب سے ایٹم بم گرائے جانے کے بعد صاف نظر آ رہا تھا کہ جاپان ہتھیار ڈالنے والا ہے۔ اس موقع پر روس کے سربراہ سٹالن نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ مشرقی ایشیا کے امور کے ماہر یورگ فریدرش نے اس بارے میں بتایا۔

اس رات جب جاپان کےشاہ نے ہتھیار ڈالے سٹالن کے فوجی دستے منچوریا میں گھس گے۔ 12 روز میں انہوں نے پورے منچوریا پرقبضہ کر لیا۔ وہ کوریا کے شمال تک پہنچ گے۔ انہیں روکنے والا کوئی نہ تھا۔

ان دنوں امریکی دستے جاپانی جزیروں پر قبضہ کرنے میں مصروف تھے۔ کوریا میں امریکہ کے اپنے کوئی فوجی دستے نہ تھے۔ چنانچہ امریکہ نے کوریا میں روسی چڑھائی کو سیاسی طریقے سے روکنے کی کوشش کی۔ اس نے سٹالن کو اس بات کا قائل کر لیا کہ کوریا کو38عرض بلد کی لائن پراس طرح سے دو حصوں میں تقسیم کیا جائےکہ شمالی حصہ روس جبکہ جنوبی حصہ امریکہ کی زیر نگرانی رہ سکے۔ کوریا کی تقسیم کے بعد شمال میں سوویت یونین جبکہ جنوب میں امریکہ کا تسلط قائم ہو گیا۔

1947 میں امریکہ کی کوششوں سے اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کے تحت طے پایا کہ کوریا میں عام انتخابات منعقد کرائے جائیں۔ تاہم 1948 میں صرف جنوبی کوریا میں انتخابات منعقد ہو سکے، جس کے نتیجے میں اسی سال 15 اگست کوریپبلک کوریا کا وجود عمل میں آیا۔چند دن بعد 9 ستمبر 1948کو کم ال سنگ نے ماسکو کی حمایت سے ملک کے شمالی حصےکو ڈیموکریٹک پیپلز ریپبلک آف کوریا کا نام دےدیا۔

یورگ فریدرش نےبتایا: ’’ کم ال سُنگ سوویت آرمی میں ایک فوجی افسر رہ چکے تھے۔ وہ کافی عرصے تک سائبیریا میں رہے۔ وہاں انہوں نے فوجی افسر کی حیثیت سے تربیت حاصل کی۔ دوسرے لفظوں میں یہ سٹالن کے نمائندے ہی تھے جنہوں نے شمالی کوریا کی بنیاد رکھی۔