1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی کوریا کے متنازعہ ایٹمی پروگرام پر مذاکرات بدستور تعطل کا شکار

13 اپریل 2006

شمالی کوریا کے متنازعہ ایٹمی پروگرام کے بارے میں 6 قومی مذاکرات کی بحالی کی تازہ کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں۔ گذشتہ 6 مہینے سے یہ مذاکرات تعطل کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ ٹوکیو سے Martin Fritz کی رپورٹ۔

https://p.dw.com/p/DYLw
تصویر: dpa

بدھ کے روز جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں سلامتی کے موضوع پر منعقدہ ایک کانفرنس کے موقع پر شمالی کوریا کا ایٹمی تنازعہ بھی زیرِ بحث آیا۔ شمالی کوریا اپنے اِس موقف پر ڈٹا ہوا ہے کہ 6 قومی مذاکرات کا سلسلہ تبھی بحال ہو سکتا ہے ، جب امریکہ پیانگ یانگ کے منجمد اثاثے بحال کر دے گا۔ اِس اعلان کے بعد چین ، روس ، جاپان جنوبی کوریا اور امریکہ کے اعلیٰ سفارت کار اِن مذاکرات کی بحالی کے سلسلے میں نا امید نظر آتے ہیں۔

ٹوکیو میں شمالی کوریا اور امریکہ کے نمائندوں کے درمیان براہِ راست بات چیت ایک دفعہ بھی نہ ہو سکی۔ امریکی مذاکراتی وفد کے قائد Christopher Hill نے کہا کہ مذاکرات کی بحالی کا دار و مدار شمالی کوریا پر ہے۔ جنوبی کوریائی وفد کے سربراہ Chun Young Woo کا کہنا ہے کہ اثاثے بحال کرنے کے مسئلے کو ایٹمی تنازعے کے مذاکرت کے ساتھ منسلک کرنا شمالی کوریا کے مفاد میں نہیں۔

امریکہ نے شمالی کوریا کو پیشکش کی ہے کہ ایٹمی تنازعے کے بارے میں مذاکرات کے اگلے دور میں اثاثے بحال کرنے کا موضوع بھی زیرِ بحث لایا جا سکتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے امریکہ کی جانب سے عاید کی جانے والی پابندیوں نے شمالی کوریا کی حکومت کو سخت متاثر کیا ہے۔ یہ پابندیاں خاص طور پر Macao میں اُس چینی بینک پر عاید کی گئی ہیں ، جس کے ذریعے پیانگ یانگ حکومت اب تک اپنا لین دین کرتی رہی۔ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ شمالی کوریا کے آمر Kim Yong Il اور اُن کے اہل خانہ کے ذاتیAccounts بھی اِسی بینک میں ہیں۔

امریکہ کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق اُس نے شمالی کوریا کے شہریوں اور اداروں کی 24 ملین ڈالر کی رقم منجمد کر رکھی ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ Macao کے بینک نے شمالی کوریا میں چھاپے گئے ڈالر کے جعلی نوٹوں کو نہ صرف قانونی کرنسی کا روپ دینے بلکہ اُن کی بازار میں گردش کے سلسلے میں بھی مدد کی۔ اب تک کی معلومات کے مطابق 100 ڈالر کے یہ نوٹ اس قدر حقیقی نظر آتے ہیں کہ ان میں اور اصل کرنسی میں فرق کرنا بہت ہی مشکل ہے اور یہ کہ ایسے نوٹ شمالی کوریا کے سرکاری چھاپے خانے میں ہی تیار کئے جا سکتے ہیں۔

ٹوکیو مذاکرات پر شمالی کوریا کی ایک پرانی مجرمانہ کارروائی نے بھی منفی اثرات مرتب کئے۔ کہا جاتا ہے کہ 80ءکے عشرے میں شمالی کوریا نے کم از کم 13 جاپانی باشندوں کو اغوا کر لیا تھا ، جن میں اسکول کی طالبہ Megumi Yokota بھی شامل تھی۔ اب شمالی کوریا کا کہنا یہ ہے کہ اِس لڑکی نے اپنے اغوا کے 17 سال بعد خود کشی کر لی تھی۔ تاہم شمالی کوریا نے ثبوت کے طور پر جو راکھ جاپان کو بھیجی ، وہ کسی ایک شخص کی نہیں بلکہ زیادہ لوگوں کی ہے۔ مزید یہ کہ اِس لڑکی کا شوہر ، جو شمالی کوریا میں ابھی زندہ ہے ، دراصل جنوبی کوریا کا وہ باشندہ ہے ، جو 30 سال پہلے لا پتہ ہو گیا تھا۔

جاپان کو امید ہے کہ جنوبی کوریا اغوا کے ان معاملات کی تفتیش میں مدد فراہم کرے گا۔ اب تک جنوبی کوریا بین الکوریائی مذاکرات میں اغوا کے اس مسئلے کو موضوع بنانے سے گریز کرتا رہا ہے حالانکہ جنوبی کوریا اور جاپان کی طرف سے شمالی کوریا کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہ کرنے کا ایک سبب اغوا کے یہ واقعات بھی ہیں ، جو ابھی تک حل طلب ہیں۔