1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شہد کی مکھیوں کی موت روکنے کے لیے مائیکرو سینسرز کا استعمال

افسر اعوان25 اگست 2015

آسٹریلوی سائنسدانوں نے کہا ہے کہ وہ دنیا بھر میں شہد کی مکھیوں کی تیزی سے کم ہوتی ہوئی آبادی کی وجوہات جاننے کے لیے ان مکھیوں کے ساتھ مائیکرو سینسر نصب کیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GLKV
تصویر: CSIRO

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شہد کی مکھیاں دنیا بھر میں قریب 70 فیصد فصلوں کی پولینیشن یا تخم کاری میں مدد کرتی ہیں تاہم ان کی آبادی میں بہت تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے جس کی وجہ سے فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے خدشات جنم لے رہے ہیں۔

محققین کی طرف سے قبل ازیں کہا گیا تھا کہ شہد کی مکھیوں کے چھتوں میں کئی ملین کی تعداد میں جوان مکھیوں کی موت کی وجہ جسے ’کالونی کولیپس ڈِس آرڈر‘ کا نام دیا جاتا ہے، خون چوسنے والے مائٹس یا ننھے طفیلیے اور موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔

آسٹریلیا کی نیشنل سائنس ایجنسی CSIRO سے تعلق رکھنے والے محقق گیری فِٹ Gary Fitt نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’جو مائیکرو سینسرز ہم استعمال کر رہے ہیں ان کی مدد سے مکھیوں کے ان کے چھتوں اور باہر ماحول میں ان کے طرز عمل کا درست طور پر تعین کر سکتے ہیں۔‘‘

ان سینسرز کا پھیلاؤ 2.5 ملی میٹر ہے جبکہ اس کا وزن محض 5.4 ملی گرام ہے۔ یہ وزن اس پولن سے بھی کم ہے جو شہد کی مکھیاں جمع کرتی ہیں۔ یہ سینسر یورپی شہد کی مکھیوں کی کمر پر چپکا دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انتہائی ڈیٹا اکھٹا کرنے والے جدید ریسپرٹرز مکھیوں کے چھتے میں نصب کر دیے جاتے ہیں۔

CSIRO امریکی ٹیکنالوجی کمپنی انٹیل اور جاپانی کمپنی ہٹاچی کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ عالمی سطح پر مکھیوں کے بارے میں اعداد وشمار جمع کرنے اور ان کو درپیش خطرات کا جانچنے کے لیے یہ آسٹریلوی ادارہ اب سینسرز تک رسائی اور اعداد وشمار کے تجزیے کی مفت سہولت پیش کر رہا ہے۔

سائنسدان آسٹریلوی ریاست تسمانیہ کے شمالی جزیرے میں قریب 10 ہزار شہد کی مکھیوں اور ان کے چھتوں میں یہ سینسرز نصب کر چکے ہیں
سائنسدان آسٹریلوی ریاست تسمانیہ کے شمالی جزیرے میں قریب 10 ہزار شہد کی مکھیوں اور ان کے چھتوں میں یہ سینسرز نصب کر چکے ہیںتصویر: CSIRO

CSIRO کے شعبہ ہیلتھ اینڈ بائیو سکیورٹی ڈویژن کے سائنس ڈائریکٹر گیری فِٹ کے مطابق، ’’ہم ان سینسرز کے ذریعے اس تمام ماحول کے بارے میں معلومات جمع کر رہے ہیں جہاں جہاں یہ مکھیاں جاتی ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’اس سے ہمیں ان کے طرز عمل میں تبدیلی کا پتہ چلتا ہے۔۔۔ کتنا وقت اور کتنی مرتبہ وہ خوراک جمع کر رہی ہیں، کیا وہ خوراک لے رہی ہیں، کیا وہ پولن جمع کر رہی ہیں یا یہ کہ وہ چھتے کے اندر کیا کر رہی ہیں۔ اس کے بعد ہم دیکھ سکتے ہیں اور نتائج اخذ کر سکتے ہیں کہ وہ مختلف دباؤ کی کیفیات میں کس طرح کا رد عمل دکھا رہی ہیں۔‘‘

اب تک سائنسدان آسٹریلوی ریاست تسمانیہ کے شمالی جزیرے میں قریب 10 ہزار شہد کی مکھیوں اور ان کے چھتوں میں یہ سینسرز نصب کر چکے ہیں جبکہ مزید سڈنی اور کینبرا شہر میں مکھیوں کے بارے میں جاننے کے لیے اس ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جانا ہے۔

فِٹ کے مطابق برازیل میں بھی قریب اتنی ہی تعداد میں مکھیوں کے بارے میں محققین جائزہ لے رہے ہیں جبکہ یورپ اور شمالی امریکا کے ماہرین بھی اس تحقیق میں شمولیت کے لیے اپنی دلچسپی کا اظہار کر چکے ہیں۔