1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صحافی سلیم شہزاد کا قتل اور سوال ہی سوال

2 جون 2011

پاکستان ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کے لیے خطرناک ترین ملک کے طور پر جانا جانے لگا ہے۔ صحافی سلیم شہزاد کے اغوا اور قتل کے بعد یہ تاثر مزید مستحکم ہوا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/11T0C
اغوا اور قتل ہونے والے پاکستانی صحافی سلیم شہزاد کا جسد خاکی
سلیم شہزاد کا جسد خاکیتصویر: ap

خصوصاً تحقیقاتی رپورٹنگ کرنے والوں کو بے پناہ خطرات کا سامنا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہونے کے بعد کراچی میں اغوا اور قتل ہونے والے امریکی صحافتی ڈینئل پرل سے لے کر سلیم شہزاد تک پاکستان میں پندرہ صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے جبکہ دو صحافی فرائض کی انجام دہی کے دروان دہشت گردی کا نشانہ بن گئے۔

پاکستان میں صحافیوں کے لیے صورت حال کس قدر مشکل ہے، اس کا اندازہ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کے اس بیان سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ صحافی حالت جنگ میں ہیں اور وہ اپنی حفاظت کے لیے ہتھیار ساتھ رکھیں۔

پاکستانی صحافی سلیم شہزاد کے قتل کے خلاف ہونے والے احتجاج کا ایک منظر
پاکستانی صحافی سلیم شہزاد کے قتل کے خلاف ہونے والے احتجاج کا ایک منظرتصویر: ap

ماضی میں پاکستانی حساس ادارے تحقیقاتی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو مبینہ طور پر اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال ملک کے سب سے بڑے صحافتی ادارے سے وابستہ ایک صحافی عمر چیمہ کا اغوا ہے۔ سلیم شہزاد کے قتل پر ملکی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ حالات میں آئی ایس آئی اس طرح کا اقدام کرنے کی پوزیشن میں ہے؟

موجودہ پاکستانی حکومت کے قیام کے بعد سے امریکہ اور آئی ایس آئی کے تعلقات تناؤ کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ خصوصاً ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کی ایک امریکی آپریشن کے دوران ہلاکت سے پاکستان کے اندر اور باہر آئی ایس آئی کو تنقید کا نشانہ بن رہی ہے۔ ایسے میں دہشت گردوں نے کراچی میں واقع پاک بحریہ کے اسٹیشن پی این ایس مہران پر حملہ کیا، جس کے حوالے سے سلیم شہزاد نے ایک تحقیقاتی رپورٹ لکھی۔ اس میں القاعدہ اور پاکستان کی مسلح افواج کے مبینہ رابطوں کا نہ صرف انکشاف کیا گیا تھا بلکہ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ دہشت گردوں اور پاک بحریہ کے درمیان انتہا پسندوں کے لیے ہمدردی رکھنے والے گرفتار فوجیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات بھی جاری تھے اور مہران بیس پر حملہ ان مذاکرات کی ناکامی پر کیا گیا۔ اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد سلیم شہزاد کو اغوا کر کے قتل کردیا گیا اور یوں تمام تر الزام آئی ایس آئی کے سر پر آ گیا۔ آئی ایس آئی نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ آئی ایس آئی کو اس طرح کی وضاحت پیش کرنا پڑی ہے۔

کراچی سے اغوا اور قتل ہونے والا امریکی صحافی ڈینئل پرل
کراچی سے اغوا اور قتل ہونے والا امریکی صحافی ڈینئل پرلتصویر: AP

مبصرین کے مطابق سلیم شہزاد کے قتل میں مذہبی انتہا پسند قوتیں بھی ملوث ہو سکتی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی تیسری قوت اس صورت حال سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہو اور اسی لیے سلیم شہزاد کو ایک ایسے موقع پر قتل کیا گیا ہے کہ تمام تر شکوک آئی ایس آئی اور مذھبی انتہا پسندوں کی طرف جائیں۔

کچھ دیگر مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سلیم شہزاد کے قاتلوں کی گرفتاری خود حساس اداروں خصوصاً آئی ایس آئی کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ قاتلوں کے گرفتار ہونے تک شبہ حساس اداروں پر ہی کیا جائے گا۔

رپورٹ: رفعت سعید، کراچی

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں