1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صحافی موسیٰ خان خیل سپرد خاک

19 فروری 2009

سوات میں قتل ہونے والے صحافی موسیٰ خان خیل کوان کے آبائی قبرستان میں سپردخاک کردیاگیا۔ ملک بھرکے صحافی ان کے قتل پرسراپا احتجاج ہیں۔

https://p.dw.com/p/GxY7
سوات میں طالبان نے انصاف سمیت دیگر معاملات میں متوازی حکومتی نظام قائم کر رکھا تھاتصویر: AP

موسیٰ خان خیل تحریک نفاذ شریعت کے امن وفد اورعسکریت پسندوں کے مابین مذاکرات کی کوریج کیلئے مٹہ میں موجود تھے جہاں سے نامعلوم افراد نے انہیں اغواء کرنے کے بعد قتل کیا سوات میں ان کی نمازجنازہ کے بعد صحافیوں نے پرامن احتجاج کیا جبکہ ملک بھر کے میڈیا ٹیموں نے سوات چھوڑنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ موسیٰ خان خیل کی قتل پر پشاور اورقبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے بھی احتجاجی ریلی نکالی ریلی میں صحافیوں کے علاوہ وکلاء، سیاسی رہنماؤں اور غیرسرکاری تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی احتجاجی ریلی سے خیبریونین آف جرنلسٹس کے صدر محمد ریاض اوردیگر نے خطاب کیا اور صوبائی حکومت سے واقعہ کی فوری تحقیقات کامطالبہ کیا یونین آف جرنلسٹس کے صدر محمد ریاض کاکہنا ہے کہ ’’جب سے تشدد کاسلسلہ شروع ہوا یہاں پر خصوصی طورپر صحافیوں کو نشانہ بنایاگیا جو لوگ عوامی رائے پراثرانداز ہوسکتے ہیں انہیں راستے سے ہٹایاجاتا ہے لوگ بے دریغ طریقے سے مارے جارہے ہیں اور یہ سب باتیں اخبار کی بجائے الیکڑانک میڈیا پر آتی ہیں اس وجہ سے یہی لوگ نشانہ بن رہے ہیں اور یہ سلسلہ تب تک چلتا رہے گا جب تک حکومتی عمل داری وہاں قائم نہیں ہوتی۔ اس میں سیاسی جماعتوں اور علماء کو اپنا کردارادا کرنا چاہیے ہم حکمرانوں سے یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ پہلے قاتلوں کی نشاندہی کریں تب یہ سلسلہ آگے بڑھے گا لیکن اگر یہ کمیشن یاکمیٹی بنائیں گے اوران کی رپورٹ چھ ماہ بعد آنی ہوتو پھر مسئلہ حل نہیں ہوگا۔‘‘

سوات میں قتل ہونے والے صحافیوں کی تعداد چار جبکہ مجموعی طورپر صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں گزشتہ دو سالوں کے دوران 14 صحافی قتل ہوئے تاہم ابھی تک نہ تو کسی کے قتل کے تحقیقات کے نتیجے میں کسی پر ہاتھ ڈالا گیا اورنہ ہی تحقیقات کے نتیجے میں کسی پر ذمہ داری عائد کی گئی۔ پشاورپریس کلب کے منتخب سیکرٹری جنرل محمد علی خان کہتے ہیں کہ ’’سوات میں چوتھا اورسرحدمیں آٹھواں واقع ہے جس میں صحافی کوظلم کانشانہ بنایاگیا میراخیال ہے کہ ان کا جرم صرف اتناتھا کہ انہوں نے اپنا فرض نبھاتے ہوئے عوام کوحقائق سے آگاہ کیا انتہائی افسوس ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی ایسا واقعہ پیش آتاتو معمول کے مطابق حکومت کے مذمتی بیانات آتے ہیں اورکمیشن بنانے کا اعلان توکیا جاتا ہے لیکن اس کمیشن اورکمیٹیوں کاکوئی رپورٹ ابھی تک منظر عام پرنہیں آئی ہم بار بار صحافیوں کے تحفظ کامطالبہ کرتے رہے ہیں۔ موسیٰ خان خیل کوملنے والی دھمکیوں کے بارے میں ان کا کہنا تھاکہ ہم یہی رونا روتے ہیں کہ ایسے ماحول میں جب اطلاعات باہر نہیں نکلتی اورصحافی ایشوز کو سچ کرتے ہیں سارے لوگ شکوک وشبہات میں مبتلا ہیں بعض لوگوں کی رائے ہے کہ سوات کے عسکریت پسندوں کو بعض موثر قوتوں کی سپورٹ حاصل ہے ان حالات میں آپ کسی پر بھی انگلی نہیں اٹھاسکتے ‘‘۔

سوات میں قیام امن کے لئے کالعدم تنظیم تحریک نفاذشریعت کے دس رکنی وفد طالبان کے سربراہ مولانافضل اللہ سے مذاکرات کیلئے گھٹ پہو چار پہنچ گیا اطلاعات کے مطابق طالبان نے نفاذ شریعت کے وفد صوبائی حکومت کے ساتھ کیے گئے معاہدے کامسودہ طلب کرنے کے ساتھ بعض شرائط بھی پیش کی ہیں۔