1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صومالیہ کے سمندری قزاق

وم دورین بش / افضال حسین19 نومبر 2008

اگر افراتفری اور ابتری کو کوئی نام دیا جا سکتا، تو اسے یقینا صومالیہ کا نام دیا جاتا۔ 1991 میں ڈکٹیٹر Siad Barre کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے صومالیہ میں کوئی فعال حکومت قائم نہ ہو سکی۔

https://p.dw.com/p/FyAb
صومالیہ کے ساحلی علاقوں کی نگرانی کی کوئی انتظام نہیں ہے اس لئے بحری قزاقوں کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔تصویر: AP

رہی سہی کسر نہ ختم ہونے والی خشک سالی نے نکال دی۔ آج صومالیہ کی نصف آبادی کو سخت غذائی قلت کا سامنا ہے۔ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ملک، دہشتگردی کا راج، جابروارلارڈز، زیر زمین سرگرم عمل عسکریت پسند گروپس اور بے یارو مددگار عبوری حکومت۔ یہ ہیں وہ حالات، جو جرائم پیشہ گروپوں کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ چونکہ صومالیہ کے ساحلی علاقوں کی نگرانی کی کوئی انتظام نہیں ہے اس لئے بحری قزاقوں کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ جواس سمندری راستے سے گزرنے والے جہازوں کو اغوا کر کے بطور تاوان بھاری رقوم وصول کرتے ہیں۔

Tanker Sirius Star in Rotterdam PANO
اس سال بحری قزاق اب تک 30 ملین ڈالر تاوان۔رقم کے طور پر وصول کر چکے ہیں۔سعودی عرب کا آئل ٹینکر سایرس سٹار بحری قذاقی کا نشانہ بننے والا سب سے بڑا جہاز ہے۔تصویر: AP

بین الاقوامی جہازرانی دفتر کے سربراہ Pottengal Mukundan کا اس آبی گزرگاہ کے بارے میں کہنا ہے:’’ اس وقت دنیا کا یہ سب سے زیادہ خطرناک سمندری راستہ ہے۔‘‘

سال رواں کے دوران 60 سے زاہد بحری جہاز صومالیہ کے ساحلی علاقوں کے سامنے سے اغوا کئے گے ۔ ان میں سے زیادہ تر جہازوں کو شمالی صومالیہ کے بندرگاہی شہر eyl سے تقریباً 8 کلومیٹر دور رکھا جا تا ہے۔ اس مقام کو قزاقوں کے گڑھ کی حیثیت حاصل ہے۔ یوکرائن کا اغوا شدہ ایک مال بردار جہازبھی یہیں کھڑا ہے جس میں 3 درجن ٹینک، بہت سے ہتھیار اور گولہ بارود لدا ہے۔ بحری قزاق تاوان وصول کرنے کے لئے کشتیاں اور مال بردار جہاز اغوا کرتے ہیں۔

Sirius Star
اس علاقے میں امریکہ اور نیٹو کے تین جنگی جہاز گشت کرتے رہتے ہیں۔ تا کہ اس مصروف ترین بحری گزرگاہ کو محفوظ بنایا جا سکے۔ اس کے باوجود جہازوں کے اغوا کی کاروائیاں ختم نہیں ہوئیں۔تصویر: AP

مثلاً ایک جرمن مال بردار جہاز چھڑانے کے لئے جہاز راں کمپنی کو 2,5 ملین ڈالرادا کرنے پڑے تھے۔ایک برطانوی پولیٹک انسٹیوٹ کے مطابق صرف اس سال بحری قزاق اب تک 30 ملین ڈالر تاوان۔رقم کے طور پر وصول کر چکے ہیں۔سعودی عرب کا آئل ٹینکر سایرس سٹار بحری قزاقی کا نشانہ بننے والا سب سے بڑا جہاز ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ اس علاقے میں امریکہ اور نیٹو کے تین جنگی جہاز گشت کرتے رہتے ہیں۔ تا کہ اس مصروف ترین بحری گزرگاہ کو محفوظ بنایا جا سکے۔ اس کے باوجود جہازوں کے اغوا کی کاروائیاں ختم نہیں ہوئیں۔