1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صومالی مام کے لیے انسانی وقار کا انعام

4 دسمبر 2008

انسانی تجارت کا شکار مرد، عورتوں اور بچوں کے لیے زندگی صرف نا امیدی کا نام بن کر رہ جاتی ہے ۔

https://p.dw.com/p/G9IP
کمبو ڈیا سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی علمبردار صومالی مام گزشتہ بارہ برس سے جسم فروشی ،انسانی تجارت اور جبری مشقت کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔تصویر: Norman Jean Roy

تا ہم کچھ لو گ ایسے بھی ہیں جو سیکس ٹریڈ کے شکار ان لوگوں کی زندگی میں امید کی ایک نئی کرن لانے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک خاتون صومالی مام کو حال ہی میں جرمن صدر ہورسٹ کوئلر نے رولانڈ بیرگر انسانی وقار کے انعام سے نوازا۔ کمبو ڈیا سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی علمبردار صومالی مام گزشتہ بارہ برس سے جسم فروشی ،انسانی تجارت اور جبری مشقت کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ ’رولانڈ بیرگر انعام برائے انسانی وقار‘ کی انعامی رقم ایک ملین یورو بھی صومالی مام کو پیش کی گئی ۔

انسانی تجارت اور جسم فروشی میں اضافہ: اکیسویں صدی میں انسانی تجارت اور جسم فروشی کے کاروبار میں کمی کی بجائے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔صرف کمبوڈیا میں ہر سال ہزاروں مردوں، عورتوں اور بچوں کو بیچا اور خریدا جاتا ہے۔ خصوصاً بچوں اور عورتوں کو جنسی کاروبارکے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ اڑتیس سالہ صومالی مام سیکس ٹریڈ کے خلاف کام کر رہی ہیں۔

Horst Köhler am Schreibtisch
’’میں شرمندہ ہوں کہ ہمارے ملک سے تعلق رکھنے والے مرد جنس کی بنیاد پر عورتوں اور بچوں کا استحصال کرتے ہیں۔ یہ باعث شرم ہے کہ ہزاروں عورتوں کو جسم فروشی کے لیے اغوا کیا جاتا ہے۔‘‘تصویر: AP

جرمن صدر کوئلر نے خوشی کا اظہار کیا کہ ایک ایسی عورت کو رولانڈ بیرگر ایوارڈ دیا جا رہا ہے جو جنسی کاروبار اور انسانی تجارت کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ ’’آج وہ اس کام میں سر گرم ہیں کہ وہ دوسری عورتوں اور بچیوں کو کس طرح محفوظ بنا پائیں۔ ہارے سامنے وہ خاتون ہیں جن کی مشقت سے تاریخ کے صفحے دمک رہے ہیں اور ساتھ ساتھ وہ ایک ایسی مثالی شخصیت ہیں جو انسانی وقار کے تحفظ کا عملی نمونہ ہیں ۔ ‘‘

ظلم کے خلاف آواز: صومالی مام بچپن میں خود بھی اسی انسانی تجارت کا شکار ہو کر مار پیٹ، آبروریزی اور تکلیف دہ زندگی کو اپنانے پر مجبور ہوئیں۔ مگر وہ بہرحال خاموش نہیں رہیں۔ انہون نے اس ظلم کے خلاف اپنے شوہر کے ساتھ مل کر آواز اٹھائی اور ایک غیر منافع بخش تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد انسانی تجارت اور جنسی کاروبار سے متاثرہ افراد کی مدد کرنا ہے۔

Somaly Mam in Kambodscha
جب صومالی مام کو ایوارڈ دینے کے لیے سٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی تو یہ بہت ہی جذباتی منظر تھا۔تصویر: Norman Jean Roy

انسانی وقار کو خراج تحسین: معروف جرمن ایوارڈ رولانڈ بیرگر ان افراد اور اداروں کو دیاجاتا ہے جو دنیا میں امن کے فروغ کے علاوہ انسانی عظمت اور وقار اور حقوق کی ترویج کے لئے سرگرم ہوتے ہیں۔ رولانڈ بیرگر جنہوں نے اس ایوارڈ کی بنیاد رکھی ہے۔ رولانڈ بیرگر نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صومالی مام جیسی غیر معروف مگر اہم اور نمایاں افراد کو ہماری ہر طرح کی مدد ملنی چاہیے۔ ’’میرے لیے یہ ایک اہم شام ہے،جس میں ہم پہلی مرتبہ رولانڈ بیرگر ایوارڈ برائے انسانی وقار دے رہے ہیں ۔ دنیا میں امن پسندانہ اشتراکیت کے لیے ا یک ایسی دلیر عورت کو جو انسانی حقوق اور وقارکو مجروح کیے جانے کے خلاف لڑ رہی ہے اس کا نام صومالی مام ہے۔ ‘‘

جنسی کاروبار اور استحصال: تقریب میں موجود جرمن صدر کوئلر نے کہا کہ جسم فروشی اور انسانی تجارت کا کاروبار صرف ایشیا ہی کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے ۔ ’’میں شرمندہ ہوں کہ ہمارے ملک سے تعلق رکھنے والے مرد جنس کی بنیاد پر عورتوں اور بچوں کا استحصال کرتے ہیں۔ یہ باعث شرم ہے کہ ہزاروں عورتوں کو جسم فروشی کے لیے اغوا کیا جاتا ہے۔‘‘

Galerie Nobelpreis 2003 Shirin Ebadi Friedenspreis
اس انعام کے حقدار کو چننے کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں نوبیل امن انعام یافتہ کوفی عنان اور محمد یونس کے علاوہ ایران کی انسانی حقوق کی کارکن شیرین عبادی بھی شامل تھیں۔تصویر: AP

جب صومالی مام کو ایوارڈ دینے کے لیے سٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی تو یہ بہت ہی جذباتی منظر تھا۔ ’’مجھے بہت سے انعام ملے ہیں لیکن اس انعام نے مجھے بہت جذباتی کر دیا ہے ۔ مجھے جب فون پر بتایا گیا کہ انسانی وقار کا انعام مجھے دیا جائے گا ۔ میں شیلٹر ہوم میں بتایا کہ ہمیں وقار اور عظمت کا ایوارڈ دیا جا رہا ہے۔ ہمارے لیے وقار کیا ہے۔ مجھے اپنی ماں کا نہیں پتا میں اپنے والدین کو نہیں جانتی۔ مجھے یہ علم نہیں کہ صومالی میرا اصلی نام ہے کہ نہیں۔ مجھے بس یہ یاد ہے کہ مجھے بیچا گیا صرف اس لیے کیونکہ میری رنگت کالی تھی۔ ‘‘ ان بچیوں کی زندگی کو تبھی ختم کر دیا جاتا ہے جب وہ صرف بارہ یا چودہ سال کی ہوتی ہیں۔ یہ کہتے ہوئے صومالی مام کی آنکھیں بھر آئیں۔

قابل ستائش ہمت : تا ہم اب صومالی مام کے ہمت اور حوصلے کے سبب ان بچیوں کےلیے بنائے گئے بحالی کے مرکز میں ان کی نگہداشت کی جاتی ہے اور انہیں تعلیم حاصل کرنے کا موقع بھی دیا جاتا ہے۔ اس تنظیم کی شاخیں تھائی لینڈ اور ویت نام میں بھی کھل چکی ہیں۔ ایوارڈ لینے کے بعد صومالی مام نے کہا: ’’ آج میں یہ انعام ان تمام بچیوں کے ساتھ باٹنا چاہتی ہوں جو صومالی مام شیلٹر ہوم میں ہیں جو انسانی تجارت کا شکار ہوئیں۔ وہ مجھے متاثر کرتی ہیں وہ مجھ سے محبت کرتی ہیں وہ میرے پر اعتماد کرتی ہیں۔ وہ پانچ چھ یا سات سال کی ہیں ان میں سے کچھ ایچ آئی وی پوزیٹو ہیں لیکن پھر بھی وہ ہمت رکھتی ہیں سکول جاتی ہیں ، دن میں تین مرتبہ اپنی دوا کھاتی ہیں۔ وہ بہت بہادر ہیں۔‘‘

اس انعام کے حقدار کو چننے کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں نوبیل امن انعام یافتہ کوفی عنان اور محمد یونس کے علاوہ ایران کی انسانی حقوق کی کارکن شیرین عبادی بھی شامل تھیں۔