1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ضرورت ایجاد کی ’ماں‘ ہوتی ہے، دھند سے پانی

2 نومبر 2011

پینے کے صاف پانی کی قلت دورکرنے کے لیے کہر سے صاف پانی حاصل کرنا بھی ایک طریقہ ہے۔ جنوبی افریقہ میں شی آوا ایک پسماندہ گاؤں میں سائسندانوں نے وہ نیٹز لگائے ہیں، جن سے پانی حاصل کیا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/133uO
دھند سے صاف پانی حاصل کرنے کا سلسلہ کافی عرصہ پہلے سے شروع کیا جا چکا ہ۔تصویر: AP

پینے کے صاف پانی کی قلت کو دورکرنے کے لیےکہر یا دھند سے صاف پانی حاصل کرنا بھی ایک طریقہ ہے۔ جنوبی افریقہ میں شی آوا ایک پسماندہ گاؤں ہے، جہاں پینے کے لیے پانی کی شدید قلت رہتی تھی۔ اس پہاڑی علاقے میں سائسندانوں نے وہ نیٹز لگائے ہیں، جن سے پانی حاصل کیا جاتا ہے۔

دنیا کےکئی شہروں اور علاقوں میں جہاں بہت زیادہ دھند ہوتی ہے مختلف جال لگا کر پینے کے صاف پانی حاصل کرنے کا سلسلہ کافی عرصہ پہلے سے شروع کیا جا چکا ہے۔ ’شی آوا‘ پہاڑوں میں گھرا جنوبی افریقہ کا ایک ایسا گاؤں سے، جہاں بہت زیادہ دھند چھاتی ہے۔ جب بھی اس گاؤں کے بچےگہری کہر یا دھند دیکھتے ہیں تو ان کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی۔ اُن کے لیے اس کا مطلب اسکول میں پینے کا صاف پانی ہوتا ہے۔ پہاڑوں اور دھندلے موسم کی وجہ سے اس گاؤں کا شمار جنوبی افریقہ کے ان علاقوں میں ہوتا ہے، جہاں فضا میں موجود کہر کو باآسانی نیٹز کے ذریعے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ جنوبی افریقہ کےکئی دوسرے دیہی علاقوں کی طرح شی آوا میں بھی صاف پانی کی قلت ہے لیکن اسکول کی چھت پر لگے ہوئے دھند سے پانی بنانے کے جال نے زندگی کو قدرے آسان بنا دیا ہے۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے اگلی چند دہائیوں میں جنوبی افریقہ کا موسم مزید خشک ہو جائے گا۔2007ء میں ایک مقامی یونیورسٹی کے تعاون سے دھند محفوظ کرنے کا یہ جال لگایا گیا تھا۔ اس کی مدد سے ایک دن کے دوران ڈھائی سو لیٹز پانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ شی آوا کے اسکول کے پرنسپل نے بتایا کہ یہ پانی بالکل صاف ستھرا اور پینے کے قابل ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ دھند سے حاصل کیے جانے والے پانی کے استعمال کے بعد سے بچوں کی صحت اچھی ہوئی ہے اور پانی سے پھیلنے والی بیماریوں میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔

Nebel, Regenwald – Guatemala
گا۔2007ء میں ایک مقامی یونیورسٹی کے تعاون سے دھند محفوظ کرنے کا یہ جال لگایا گیا تھا۔تصویر: CC/NeonMan

بچے اسکول میں صاف پانی کی فراہمی کی وجہ سے بہت خوش ہیں اب انہیں گھر سے بوتلوں میں پانی بھرکر نہیں لانا پڑتا بلکہ وہ اسکول سے کچھ پانی گھر بھی لے جاتے ہیں۔ اسکول کے پرنسپل کہتے ہیں کہ بچوں کو اس بات کا بہت خوب اندازہ ہوگیا ہےکہ پانی کتنی نایاب شے ہے۔ اس وجہ سے اس کا ایک قطرہ بھی ضائع نہیں کیا جاتا بلکہ اسے اب تو کاشتکاری میں بھی استعمال کیا جانے لگا ہے۔ اس منصوبے پرکام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی حاصل کرنے کے لیے صرف گہری دھند ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ ہوا کا چلنا بھی بہت ضروری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پانی کی قلت دور کرنے کے حوالے سے ایک کم خرچ متبادل ہے۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت : امتیاز احمد